Ye Tha Insaf
یہ تھا انصاف
میں ایک وڈیو دیکھ رہی تھی "جس میں ملزم ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا" جو سٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا اور اس نے پکڑے جانے پر گارڈ سے مزاحمت کی جس کے نتیجے میں سٹور کی شلیف shelf ٹوٹ گئی "جج نے فردِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا۔
کیا تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟
بریڈ اور پنیر کا پیکٹ۔ لڑکے نے اعتراف کیا۔
کیوں؟ جرح کرتے ہوئے جج نے دریافت کیا۔
مجھے ضرورت تھی۔ لڑکے نے مختصر جواب دیا۔
خرید لیتے۔ جج نے کہا۔
پیسے نہیں تھے۔
گھر والوں سے لے لیتے۔
گھر میں صرف ماں ہے، وہ بیمار اور بے روزگار ہے۔ بریڈ اور پنیر اُسی کے لئے چرائی تھی۔
کچھ کام نہیں کرتے؟
کرتا تھا ایک کار واش میں، ماں کی دیکھ بھال کے لئے چھٹی کی تو نوکری سے نکال دیا گیا۔
کسی سے مانگ لیتے، جج نے کہا صبح سے مانگ رہا تھا کسی نے مدد نہیں کی۔
جراح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کر دیا۔
چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری خوفناک جرم ہے اور اس جرم کے زمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود مجھ سمیت ہر شخص پر جرمانہ عائد کرتا ہوں، دس ڈالر جرمانہ ادا کئے بغیر کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جا سکتا۔ یہ کہہ کہ جج نے اپنی جیب سے دس ڈالر نکال کر میز پر رکھ دئیے۔ اس کے علاوہ میں سٹور انتظامیہ پر ایک ہزار ڈالر جرمانہ کرتا ہوں، کیونکہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے اُسے پولیس کے حوالے کیا۔
اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا، تو کورٹ سٹور کو سیل کرنے کا حکم جاری کرے گی اور آخری ریمارکس سراہے جانے کے قابل ہیں۔ کورٹ میں موجود ہر شخص سے رقم لے کر اُس شخص کو دیتے ہوئے "معافی طلب کی۔ یہ تھا انصاف۔ اس شخص کا جو کافر معاشرہ سے تعلق رکھتا تھا۔
یہ واقعہ سننے کے بعد مجھے حضرت عمرؓ کے دور میں کئے گئے فیصلے ذہن میں گردش کرنے لگے۔
حاطب بن ابی بلقہ کے غلاموں کا واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے ایک شخص کا اونٹ چرا کر، ذبح کر کے کھا لیا۔ ان کے خلاف چوری کا جرم ثابت ہوگیا، آپ نے حدِ سزا نافذ کرنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ حاطب کام تو سخت لیتا تھا، لیکن کھانے کو اس قدر کم دیتا تھا کہ اس سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تھا، ہم نے انتہائی مجبوری کے عالم میں ایسا کیا ہے۔
یہ سن کر آپ نے غلاموں کو تو معاف کر دیا اور حاطب کو بلا کر کہا کہ "چاہیے تو یہ کہ چوری کے جرم میں میں تمہارا ہاتھ کٹوا دوں، کیونکہ اس جرم کے مرتکب تمہارے غلام نہیں تم ہو، جس نے انہیں اس حالت تک پہنچا دیا کہ وہ چوری کرنے پر مجبور ہو گئے لیکن میں تم سے نرمی برتتا ہوں، اس دفعہ تو اتنی سزا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ تم اونٹ کی قیمت اس کے مالک کو ادا کر دو۔ اگر آئندہ تمہارے غلاموں کی یہی حالت ہوگی تو پھر تمہارے لئے کسی سخت سزا کا سوچا جائے گا۔
ہمیں اپنی تاریخ معلوم ہی نہیں ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے نصاب میں شامل ہونا ضروری ہے۔ مثالی حکومت کیا ہوتی ہے؟ مشہور ماہرِ سیاسیات مسٹر مینکن H J meneken نے اپنی کتاب Treatise right or wrong میں عہدِ قدیم سے لے کر عصرِ حاضر تک کے تمام نظام ہائے حکومت کا جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے۔
"مثالی حکومت افرادِ مملکت کی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے"۔
وہ مزید اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ بڑی ناکامیوں میں ایک ناکامی انسان کی یہ ہے کہ وہ آج تک ایسا نظام وضع نہیں کر سکا جسے اچھی حکومت کہا جا سکے۔ مثالی حکومت میں افراد معاشرہ اپنی بنیادی ضروریات کے لئے پرسکون ہوتے ہیں۔ ایسا معاشرہ تاریخِ انسانی دورِ فاروقی میں دیکھ چکی ہے۔