1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Usoolon Ki Siasat

Usoolon Ki Siasat

اصولوں کی سیاست

تمام پارٹیوں کے تجزیئے، تجزیہ نگار حتیٰ کہ پی ٹی آئی کا اپنا اندازہ 11 سیٹوں کا تھا۔ وہ اس سے بھی زیادہ سیٹیں لے گئے۔ سیاست میں کامیابی اور ناکامی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ میں تو اقبال کی طرح یہ بات مانتی ہوں کہ ضروری نہیں کہ اکثریت کا فیصلہ درست ہو، اکثریت غلط فیصلے بھی کر سکتی ہے۔ اقبال نے ایک صدی پہلے کہہ دیا تھا۔

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں

بندوں کو گناہ کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے

لیکن جو بات قابلِ ستائش ہے وہ یہ ہے کہ حکمران جماعت نے کھلے دل سے نتائج تسلیم کیے اور سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا، دوسری بات یہ ہے کہ 20 سیٹ PTI کی تھیں۔ PTI کے منحرف ارکان کو ن لیگ کو سیٹ نہیں دینی چاہیے تھی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان سے وعدہ کیا تھا، اس پر اگر ان کو سیاسی نقصان ہوا ہے تو کوئی بات نہیں، یہ منحرف ارکان الیکشن کمپئن ٹھیک نہیں چلا سکے۔

دوسری وجہ مشکل فیصلے لینے کا تھا۔ جس کی سیاسی قیمت ن لیگ نے ارا کر دی، تیسری وجہ یہ کہ عمران خان نے اپنی الیکشن کمپئن بہت شاندار چلائی وہ پاکستان کو تو نہیں چلا سکے، لیکن انھوں نے اپنے جھوٹے بیانیہ کو بہت تقویت دی، جو مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بکا، اس لئے کہ اُصولوں کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے۔ ہم ہر جھوٹی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔

اگر لیڈر قائدِاعظم کی طرح اُصولوں پر قائم رہے تو انسان ہار کر بھی جیت جاتا ہے۔ قیامِ پا کستان سے قبل الیکشنز میں اصفہانی کھڑے ہوئے، ان کے بالمقابل امیداوار بیٹھنے پر تیار تھے اس شرط پر کے زر ضمانت دے دی جائے۔ اصفہانی اور دوسرے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے تو قائدِاعظم نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ قائدِاعظم کو بتایا گیا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کے مخالف امیدوار فلاں شرط پر بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔

یہ سن کر قائدِاعظم کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپ نے کہا کے مخالف امیدوار کو زر ضمانت دے کر بٹھا دینا، بلا واسطہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم لڑیں گئے؟ نا کام رہ جائیں گئے، لیکن رشوت دے کر کامیاب نہیں ہونگے، مقابلہ کریں گئے، یہ اس وقت کی بات ہے۔ جب نہ صرف ایک ایک سیٹ بلکہ ایک ایک ووٹ بھی قیمتی تھا وہ خقیقتا حق و باطل کی جنگ تھی۔

اس وقت تمام مزہبی جماعتیں احرار، جماعتِ اسلامی وغیرہ، سب قائدِاعظم کا ساتھ چھوڑ گئیں اور یہ مردِ مومن تناہ رہ گیا، لیکن اُصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ لیکن بعض اوقات بظاہر نظر آنے والی نا کامی بہت سی کامیابیوں کی نوید سناتی ہے۔ لیکن کاش اُصولوں کی سیاست کی کوئی مثال اس دور میں بھی مل جائے جو اپنے آپ کو اُمتِ محمدی کہتے ہیں۔

جنگِ بدر میں جب مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی، اور اس وقت ایک ایک مسلمان کا اضافہ نعمت تھا، میدانِ جنگ میں عین اُس وقت حزیفہ بن الیمان اور ابو حیل دو صحابی دوڑتے ہوئے صفوں میں شامل ہوئے یہ کہیں دوسری طرف سے آرہے تھے۔ ایسے موقع پر لشکر میں ایک آدمی کا اضافہ بھی ہزار مسرت کا باعث ہوتا ہے مجاہدین کو بڑی خوشی ہوئی۔

حضور ﷺ کے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ کسی اور طرف سے آ رہے تھے، راستے میں کفار نے روکا کہ تم محمد ﷺ کی مدد کو جا رہے ہو، انہوں نے انکار کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس جہاد میں شرکت نہیں کریں گئے۔ اس طرح وہ مجاہدین سے آکر ملے ہیں۔ آپ نے سنا تو فرمایا کہ تم نے عدم شرکت کا وعدہ کیا ہے تو اس کا ایفا کرنا ضروری ہے تم جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے، فکر نہ کرو اللہ ہماری مدد کرے گا۔

اُصولوں پر قائم رہ کر واقعی اللہ مدد کرتا ہے، وقتی نا کامی کوئی معنی نہیں رکھتی، بس اللہ ہمیں اصولوں پر قائم رکھنے کی تو فیق دے اور پا کستان کو قائم و دائم رکھے۔

Check Also

Riyasat Kab Kuch Kare Gi?

By Saira Kanwal