Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Tariq Sitara Aur Hamare Amaal

Tariq Sitara Aur Hamare Amaal

طارق ستارہ اور ہمارے اعمال

اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، اپنے معاشرے میں دوستوں کی محفل میں، اپنے بچوں کے سامنے، ہم کتنے شریف، مخلص، پارسا نظر آتے ہیں، ہم جاں نثار واقع ہوتے ہیں، یہ دوست گھر بار والے، ہمارے دل کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے اور اسی لئے وہ ہمیں اپنا سمجھ کر ہماری سب باتوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ جانوروں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے بھیڑیا ہے وہ اس سے اپنا آپ بچاؤ کی کچھ نہ کچھ ترکیب کر لیتے ہیں لیکن انسان بھڑیا اپنی شکل و صورت میں انسان ہی ہوتا ہے۔

میاں بیوی کے سامنے پارسا بنا ہوتا ہے اور بیوی میاں کے سامنے!

ٹھہرئیے اور رُکیئے اور پھر سو چیں کہ یہی دوستوں کا مجمع ہو ہمارے عزیز و اقا رب ہوں، اُن سب کے سامنے ہمارا سب کچھ جو ہم نے سینوں میں چھپا کر رکھا ہے، وہ سب کے سامنے آ جائے، ظاہر ہو جائے۔ پھر ہماری حالت کیا ہوگئی؟ دنیا میں تو اپنے مفاد کی خاطر ہم رنگ بدلتے رہتے ہیں؟

اس پاک سرزمین میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھ کر ہم کیا کچھ نہیں کرتے؟ ان عدالتوں میں لا کھوں ظلم کی داستانیں دفن ہیں!

سورہ طارق پڑھتے پڑھتے میں رُک گئی اور گھنٹوں سوچنے لگی ک اتنی واضح ہدایت کے باو جود ہمیں کیا ہوگیا ہے؟

طارق کے بنیادی معنی ہیں رات کے وقت آنے والا مسافر، عربوں نے جس ستارہ کو طارق کا نام دیا اس کا مادہ "ط، ر، ق" ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو کھٹکھٹانا، ٹھک ٹھک کرنا، جس طرح رات کے وقت جو مسافر آتا ہے وہ دستک دیتا ہے اس مناسبت سے اُسے طارق کہتے ہیں۔

سب سے اہم بات جہاں رُکیے اور غور کیجیے! یہ رات کو چمکنے والا طارق ستارہ کہیں چلا نہیں جاتا بلکے وہیں ہوتا ہے لیکن مضمر(چھپا) ہوا، نظر نہیں آتا، قرآن نے اس طارق ستارہ کو ہمارے اعمال سے تشبہہ دی ہے، ہمارے اعمال جن کا نتیجہ ہمارے اندر موجود ہوتا ہے لیکن مضمر (چھپا) ہوا بالکل اس طارق ستارہ کی طرح جو دن کو نظر نہیں ہوتا، لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب ہمارے اعمال طارق ستارہ کی طرح ابھر کر سامنے آ جائیں گئے اور رات کے مسافر کی طرح ٹھک ٹھک کرکے سب پر ظاہر ہو جائیں گئے!

ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل نتیجہ پیدا کرے گا، اس دنیا میں بھی کر سکتا ہے اور اس کے بعد بھی کرے گا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ایسے کیوں ہیں؟ کیوں ہم معاشرے کو جنت نہیں بنا پائے!

اس لئے قرآن ہی کے الفاظ میں جو اُس نے کہا تھا کہ "ایمان ان کے دل کی گہرائیوں میں داخل نہیں ہوا"۔

جب ایمان دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایک مجسٹریٹ مقرر کیا۔ وہ مجسٹریٹ تھے حضرت عمر فاروقؓ۔ وہ سال بھر بیٹھے رہے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میرے سپرد کوئی کام دیجئیے، بیکار بیٹھا ہوا ہوں!

اس ایمان کے ساتھ جب آپ کو یقین ہو کہ آپ کا ہر عمل نتیجہ پیدا کرتا ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، تو جرم کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا!

شاید وہ دور اس ارضِ مقدس میں بھی آ جائے!

اس کی ہلکی سی کرن جسٹس فائز عیسیٰ کی کھلی عدالت میں ظاہر ہوئی۔ لیکن ابھی ہمیں نو جوان نسل کی تربیت کرنی ہے جس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا!

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali