Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Shirkat Miana Haq o Batil Na Kar Qabool

Shirkat Miana Haq o Batil Na Kar Qabool

شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

پاکستان جس کا مطلب پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے، دل دکھتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پاک وطن میں کیسی زبان استعمال ہو رہی ہے۔ فواد چوہدھری نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان میں سیاسی طور پر جو "سیاپا" ہے وہ آرمی چیف کی تقرری سے متعلق ہے۔ میری نانی اماں ہمیں بتایا کرتیں تھیں کہ "سیاپے" کا لفظ کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اچھا نہیں ہوتا، بچپن سے میرے ذہین میں یہی تھا کہ یہ لفظ اچھا نہیں ہے۔

یہ الفاظ ملک کی معروف جماعت کے معروف لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ مزید لکھتے ہیں کہ وزیر آباد کا پرچہ اس لئے درج نہیں ہو رہا کہ ملک میں rule of law نہیں ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ ملک لاقانونیت کا شکار ہے۔ تمام نظام درہم برہم ہے۔ اگلا جملہ جس نے مجھے دکھ اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ طاقتور گروہ ملک کے سیاسی اور عدالتی نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ قانون کا اطلاق کہیں نہیں ہوتا۔

ایک گروہ نے پاکستان کی تمام سیاست کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ پاکستان کی تمام عدالتیں اس گروہ کے تابع ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ مودی پاکستان کے متعلق کہتا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کس سے بات کرنی ہے؟ ہمارے پاس مودی کی بات کا کوئی جواب اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ٹھیک بات کہہ رہا ہوتا ہے۔ مزید وہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ایک طاقت ہے، لیکن عوام کی طاقت عمران خان کے پاس ہے۔

دشمن کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ وطن فروش عناصر کو خریدا جائے اور اپنے مضموم مقاصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، اور ان عناصر کو سراہا جائے اور اپنے مقاصد پورے کیے جائیں۔ جہانِ حیرت کا میں پہلے بھی ذکر کر چکی ہوں اس میں سردار محمد چودھری لکھتے ہیں کہ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، اس وقت اندرا گاندھی نے نصرت بھٹو اور بے نظیر کا بہت ساتھ دیا، دشمن کا ساتھ دینا بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتا۔

بہت برس بعد جب بے نظیر وزیرِاعظم تھیں، راجیو سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچے تو بےنظیر نے ان کی حد سے زیادہ ناز برداری کی۔ کشمیر ہاؤس سے کشمیر کے بورڈ بھی سڑک سے ہٹوا دئے گئے۔ اس سے زیادہ افسوسناک وہ موقع تھا جب راولپنڈی ائیرپورٹ پر مشترکہ نیوز کانفرنس میں راجیو گاندھی کے منہ سے یہ سننا پڑا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

نواز شریف نے بھی یہی غلطی کی، جب انھوں نے مودی سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، کشمیر کے مسئلے کو حل کئے بغیر یہ بات کس طرح سے بھی فوج کو قابلِ قبول نہ تھی اور نہ ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان کا مطالبہ حق پر مبنی تھا اور ہندوستان اس مطالبہ کو ہمیشہ سے باطل کرنے پر تلا رہتا ہے اور ہمارے اپنے اس کو یہ موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کل خان صاحب کر رہے ہیں۔

اسلامی ٹچ دینے والے خان صاحب کو غزوہّ تبوک کا واقعہ بتاتی چلوں۔

غزوہ تبوک میں مقابلہ بازنطینی شہنشاہیت سے تھا، اس لئے نبی ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر رجب 9 ہجری نومبر 635 کو شام کی طرف روانہ ہوئے۔ تبوک کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ فوری حملے کا کوئی امکان نہیں، اس لئے حضور ﷺ 20 دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو متخلفیین (پیچھے رہ جانے والوں) کا معاملہ پیش ہوا جن کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ سب نے اپنی اپنی معذرت پیش کر دی، لیکن تین صحابہ کعب بن مالکؓ، بلال بن اُمیہؓ، مرارہ بن ربیعؓ کا معاملہ ادھورہ رہ گیا، کعب بن مالک کی زبان سے اس واقع کو سنییں۔

"اس سفر میں گھر پر رہ جانا محض ابتلاء تھا۔ ایسا کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔ مجھے کچھ کام تھا، میں نے کہا کل چلا جاؤں گا۔ دو تین دن سستی میں گزر گئے، اتنے میں لشکر بہت دور نکل چکا تھا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ حضورﷺ نے باقی لوگوں کی معذرت قبول کرلی ہے۔ اس لئے آپ بھی ایسا ہی کریں لیکن میں اس تصور سے کانپ اُ ٹھا کہ حضور ﷺ کے سامنے جھوٹ، یہ ناممکن تھا، میں نے ٹھیک ٹھیک سارا ماجرا حضورﷺ کو سنا دیا۔

حضورﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کوئی ان تینوں سے بات نہ کرے، کعب بن مالک بتاتے ہیں کہ باقی دو ساتھی تو گھروں میں ہی رہے لیکن میں گھر سے باہر نکلتا اور نماز میں بھی شریک ہوتا، کن انکھیوں سے حضورﷺ کو دیکھتا، ایک شام اپنے چچا زاد بھائی کے باغ میں گیا اس سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا میں اللہ اور رسول کو دوست نہیں رکھتا؟ تو انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔

کعب بن مالک بتاتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کر رہا تھا، زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی، ایک دن بیوی سے علیحدگی کا بھی حکم آ گیا، آپ نے بیوی کو میکے بھجوا دیا۔ اب وہ مرحلہ آتا ہے جب دشمن تاک لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ کب ان آزمائش میں پڑے لوگوں کا ایمان خرید لیا جائے، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے، اور ایسا ہی ہوتا چلا آئے گا۔ اس لئے اللہ نے اس واقع کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کو قرآن میں جگہ دی۔

کعب بن مالک بتاتے ہیں کہ میں بازار میں چکر لگا رہا تھا کہ ملک غسان کا خط مجھے ایک شامی سوداگر کے ہاتھ سے ملا جس میں لکھا تھا کہ تمھارے آقا تم سے خفا ہو گئے ہیں اور باقی لوگ بھی تم سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کر رہے، تمھارا رتبہ بہت بلند ہے، تم اس سلوک کے مستحق نہیں ہو، نہ ہی اس قابل ہو کہ اس طرح چھوڑ دئے جاؤ، تم یہ خط پڑھتے ہی ہمارے پاس آؤ، یہاں آ کر تم دیکھو گے کہ تمھاری کس طرح قدر و منزلت پہچانی جاتی ہے۔

کتنی بڑی آزمائش تھی، لیکن جس دل میں ایمان کی حرارت موجود ہو اس کے لئے آزمائش کیا حیثیت رکھتی ہے۔ یہ خط پڑھنے کے بعد حضرت کعبؓ کے غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی، اس قاصد کے سامنے خط کو جلا دیا گیا۔ آپ گھر واپس تشریف لے گئے، آپ چھت پر تنہا بیٹھے تھے کیونکہ بیوی کو بھی گھر بھجوا دیا گیا تھا، اتنے میں ایک شحص باآوازِ بلند پکار رہا ہے۔ اے کعب، مبارک ہو، بالآخر پچاسویں دن اللہ نے حضرت کعب کی دعا قبول کر لی۔

حضرت کعب مسجدِ نبوی میں حاضر ہوئے تو ہر طرف سے احباب دوڑے چلے آ رہے تھے، مبارک دیتے اور مصافحہ کرتے، کیا حسین منظر تھا۔ قرآن نے اس واقعہ کو اس لئے اپنے دامن میں جگہ دی، صرف یہ سمجھانے کے لئے کہ ہمیشہ سے دشمن اپنوں کو خریدنے کی طاق میں رہتا ہے، بہت دل گردہ کی بات ہوتی ہے کہ اس امتحان سے کامیابی سے گزرا جائے، میں نے بار بار اپنی اس بات کو دوہرایا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ حق پر مبنی تھا اور اس سے ٹکر لینے والے باطل اور جب باطل اپنوں کو خریدنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا مقام کہاں ہوتا ہے۔

باطل دوئی ہسند ہے حق لاشریک ہے

شرکت میانہّ حق و باطل نہ کر قبول

Check Also

Bhaag Nikalne Ki Khwahish Bhi Poori Nahi Hoti

By Haider Javed Syed