Sahib e Iqtedar Ka Naam
صاحبِ اقتدار کے نام
طاقت قوت اور اقتدار کا نشہ ہیروئین کے نشہ کی طرح ہوتا ہے۔ جو چھڑانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو باقی لوگوں سے بہت طاقتور مخلوق تصور کرتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں باقی لوگوں کی ڈور ہوتی ہے، وزیرِ اعظم کا عہدہ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ لیکن پچھلی دہائیوں سے فوج کا عمل دخل اس قدر رہا ہے کہ آرمی چیف سب سے زیادہ طاقت کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔
جو بعض اوقات غلط اور ٹھیک سب فیصلے کرنے میں اپنے آپ کو با اختیار سمجھتا ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کو پچھلے آٹھ ماہ سے متنازع بنا دیا گیا تھا۔ ہر کوئی اس طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ ہم اس بات کو تسلیم تو کرتے ہیں۔ کیونکہ بچپن سے اپنے نصاب میں پڑھتے چلے آئے ہیں کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ ہے۔ لیکن حلف لینے کے بعد اللہ کے نام پر بنائی گئی اس سلطنت میں اللہ کا نام صرف حلف لینے تک رہ جاتا ہے اور پھر ہر کوئی اپنی اپنی اقتدار کی گدی سنبھال کر اپنے آپ کو طاقت کا سر چشمہ سمجھ رہا ہوتا ہے، حالانکہ حلف وہ یہ لیتا ہے کہ طاقت کا اصل سر چشمہ اللہ ہے، اگر واقعی ان کی نظر میں طاقت کا سر چشمہ اللہ ہوتا تو غریبوں کے دل عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے یوں دھڑک نہ رہے ہوتے۔
وزراء بڑی بڑی گاڑیاں استعمال کرتے ہوئے، پروٹوکول کو انجوائے کرتے ہوئے، جب گزرتے ہیں تو یہی عام عوام حسرت بھری نگاہوں سے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے رب کی طرف نگاہیں اٹھائے تک رہے ہوتے ہیں، ہمارے پاس بے انتہا وسائل ہیں۔ لیکن سب بڑے بڑے عہدوں والے، ان میں ججز اور وزراء سب شامل ہیں، کنالوں کے گھروں میں ہزاروں ملازمین اور بڑی بڑی گاڑیاں استعمال کرتے ہوئے، سب کچھ سرکاری خرچے پر ہو رہا ہوتا ہے۔
غریب ہمیشہ غریب ہی رہتا ہے۔ اُس وقت پھر مجھے کہ طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے، یاد آتا ہے، وہ حلف ہاد آتا ہے، جب یہ سب بڑے بڑے عہدوں والے عوام کے مفادات کا تخفظ کرنے کا عہد کرتے کرتے اپنی معاش کا تحفظ کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ آرمی کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی محنت کر کے آرمی چیف کے عہدہ تک پہنچ جاتا ہے۔
جیسے اب جنرل عاصم منیر بھی سکول ٹیچر کے صاحب زادہ ہیں، اور دوسری اچھی بات ان کے بارے میں یہ ہے کہ انھوں نے 45 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آئین کو بہت follow کرتے ہیں اور ایماندار ہیں، تعریف کے قلابے تمام آرمی چیف کے بارے میں ملائے جاتے رہے ہیں، خدا کرے یہ آرمی چیف واقعی اس آئین کی پیروی کریں، جس کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل عاصم منیر پر بے حد زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، بے حد مسائل ہیں، اس کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی چھٹے نمبر کی فوج کا سربراہ بننا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اگر وہ باقی سب طاقتوروں کو چھوڑ کر یہ یاد رکھیں کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ کی زات ہے اور اسی اللہ نے اللہ کے نام پر دی گئی مملکت کا ایک بڑا عہدہ ان کو عطا کیا ہے تو پھر جنرل صاحب وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جس کا ہم اب تک خواب دیکھ رہے۔
لیکن اگر انھوں نے بھی باقی سب کی طرح اپنے آپ کو اس ملک کا سب سے طاقتور اور صاحبِ اختیار سمجھ لیا کہ وہ سب غلط اور ٹھیک کرنے کے مجاز ہیں تو ایک دفعہ پھر وہی ہوگا جو آئندہ ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے تم لوگوں پر خلیفہ اس لئے منتخب کیا گیا ہے کہ میں تمھاری دعاؤں کو اللہ کے پاس جانے سے روکوں۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ عام لوگوں کی ضرورتیں پہلے ہی پوری ہو جاتیں تھیں، حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ اگر اسلامی ریاست میں کوئی فرد اپنی کسی ضرورت کے لئے خدا سے فریاد کرنے پر مجبور ہوا، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ سے میرے خیلاف شکایت کر رہا ہے۔ سب سے اہم بات کہ اسلامی دور میں کمانڈر، ان چیف اور سر براہِ مملکت ایک ہی ہوتا تھا۔ وہ افرادِ مملکت کی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانے کی زمہ داری اپنے سر لیتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی حفاظت بھی اس کی زمہ داری تھی، اس وقت میری دعا ہے کہ جو بات جنرل عاصم منیر کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ وہ آئین کی پیروی کرتے ہیں تو وہ واقعی ایسا کریں، وہ آئین جس کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ ہے اور اللہ ہی کو طاقت کا سر چشمہ سمجھیں تو اللہ کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں بہت کچھ اچھا ہو سکتا ہے۔
سیاست میں بنیادی سوال اقتدارِ اعلیٰ ہی کا ہے۔ اقتدارِ اعلیٰ کا تصور سب سے پہلے فرانسی مفکر bodin نے 1596-1530 میں پیش کیا۔ اس کے نزدیک اقتدارِ اعلیٰ sovereign power سے مفہوم وہ "مرکز" ہے۔ جو مملکت کی تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے اور سارے اختیارات کہی سے نہیں لیتا اور نہ ہی اس کے فیصلوں کی کہیں اپیل ہو سکتی ہے۔ جب میکیا وّلی کے سامنے یہ سوال پیش ہوا۔
تو اس نے کہہ دیا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کسے حاصل ہونا چاہیے؟ اصل سوال یہ ہے کہ مقتدرِ اعلیٰ ہے کون؟ مقتدرِ اعلیٰ بادشاہ ہوتا ہے۔ Hibber Hobbes کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کون ہونا چاہیے اور اس کا جواب یہ ہے کہ" فرماں رواں" ruler ہونا چاہیے لاک کا خیال ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ افراد کی اکثریت کے پاس ہونا چاہیے۔
لیکن روسو کے نزدیک اقتدارِ اعلیٰ تمام افراد کی مشترکہ ملکیت ہے benthem کی اس باب میں لاک کا ہم نوا ہے، جبکہ J. S. Mill بھی Benthem کی تائید کرتا ہے۔ لیکن اس ترمیم کے ساتھ اقتدارِ اعلیٰ "اہلِ دماغ" کے پاس ہونا چاہیے، مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ اس طبقہ کو حاصل ہونا چاہیے، جس کے پاس وسائل ہوں، نظامِ سرمایہ داری میں سرمایہ دار طبقہ کو اشتراکی نظام میں مزدوروں کو اور ہمارے دین میں اللہ کو حاصل ہے یہ چیز صرف ہمارے دین میں منفرد ہے۔
آخر میں پھر جنرل عاصم منیر کو بہت دعاؤں کے ساتھ یہ کہتی چلوں کہ وہ اپنے حلف کو یاد رکھیں کہ طاقت کا سر چشمہ صرف اللہ ہے۔ اس کے بعد اللہ کی نصرت اور کامیابی ان کے سا تھ ہوگئی۔