Mureed
مرید
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اور اخبار پڑھنی شروع کی ہے، سیاست میں لوٹوں کے لفظ کی گردان جاری ہے۔ وفاداری بدلنے کا رجحان بد قسمتی سے ہماری سیاست میں اول دن سے موجود ہے۔ پاکستان وجود میں آنے کے کچھ عرصے تک تو اخلاق کا عمل دخل سیاست میں رہا۔ لیکن جب ہم نے آئیڈیل لیاقت علی خان کو کھو دیا تو اس کی سزا شاید ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور نا جانے کب تک بھگتے رہیں گے؟ اس وقت تک جب تک ہم اپنے سیاسی نظام کی اصلاح نہیں کر لیتے۔
یہ بات میں صرف ایک سیاسی جماعت کے لئے نہیں کہہ رہی، یہ سب سیاسی جماعتوں پر لاگو ہوتی ہے۔ ایک ممبر اسمبلی کتنے پیسے خرچ کر کے اسمبلی تک پہنچتا ہے؟ اس کے ایک جلسے میں کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟ پھر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے خرچ کئے گئے پیسے دوگنا سے بھی زیادہ وصول کرتا ہے؟ منافقت کے متعلق ہمارے ذہن میں اتنا ہی ہے کہ زبان پر کچھ اور، اور ظاہر میں کچھ اور۔ لیکن اس دو رخی پالیسی کا جزبہ محرکہ کیا ہوتا ہے؟ مفاد پرستی۔
یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ کس کے ساتھ رہنے میں زیادہ فائدہ ہوتا ہے، چاہے وہ غلط نظریات کا پرچار کر رہا ہو، قرآن کے الفاظ میں منافق ہی کیوں نہ ہو! قرآ ن کی لطیف نگہی پر غور کریں کہ وہ اسے بھی شرک قرار دیتا ہے، یعنی اپنے مفاد کی خاطر نظریات کو بد ل لینا یہ سنگین جرم ہے۔
سورة النساء کی آیت نمبر 4، 114 میں ہے۔
غور سے دیکھو تو صاف نظر آ جائے گا کہ منافقین کی یہ روش شرک کے برابر ہے۔ اس سے بڑا شرک اور کیا ہو گا؟ کہ جن باتوں میں تمھیں فائدہ نظر آئے تو اس کے ساتھ جا ملو اور جب دوسری طرف فائدہ نظر آئے تو جھٹ دوسری راہ اختیار کر لو۔ اس قسم کے منافقین ہر دور میں موجود ہوتے ہیں، نزولِ قرآن کے وقت بھی موجود تھے، پاکستان کے ساتھ بے ایمانی سب سے بڑی منافقت ہے، جو کہ سرِ عام ہو رہی ہے۔
قابلِ اعتماد انسان وہ ہوتا ہے جو اُصول پرست ہو۔
سورة النساء میں ہے 4، 117۔
اِن بدعون من دُونِد الا اٰ فثاً، و اِن بد عُو ن الّا شیطٰناً مریدًا۔
لفظ مریدً، م کے زبر کے ساتھ ہے۔
اس طرح شرک کرنے والے خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں اور ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ خواہ وہ خود اپنے جزبات ہوں ہا مذہبی پیشوا یا سیاسی لیڈر۔ وہ بے حد بودے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی قوت نہیں ہوتی۔
اس آیت میں شیطان کو مرید (م کے زبر کے ساتھ) کہا گیا ہے۔ اس کے معنی سرکش کے بھی ہیں اور اس درخت کے جس کے پتے نہ ہوں۔ جو "ٹنڑ منڑ" رہ گیا ہو۔ اس لحاظ سے اس کو شاخِِ خزاں دیدہ سے تعبیر کیا ہے۔ مفہوم اس کا ہر قسم کی خوشگواریوں سے محرومی ہے۔ جو اُصولوں کو چھوڑ کر ریاستِ پاکستان سے بے وفائی کرتا ہے وہ چاہے جو کوئی بھی ہو، جس مرضی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ "مرید" ہے۔
جو ریاستِ پاکستان کو (خدانخواستہ) تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بات کرے اور ہمارا ایٹمی پروگرام جو کے ہماری سلامتی کا ظامن ہے چھن جانے کی با تیں کرے، وہ پاک سر زمین جس کے بارے میں کہا جاتا ہے:۔
پا کستان کا مطلب کیا؟
لا اللہ الا الله
وہ کیسے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا نام بھی لے سکتا ہے؟ غلط اور ٹھیک کا راستہ بالکل واضح ہے، بس تھوڑی سی بصیرت کی ضرورت ہے۔