Mullah Tariq Jamil
مُلا طارق جمیل
مسلمان یہ دعا کرتا ہے کہ ربّنا اٰتِنا فِی دنیا حّسّنتہََ وّ فِی الا خِرّتِ حّسّنّتہََ" کہ مومن کی دنیا کی زندگی بھی خو شگوار ہو اور آخرت بھی! کیونکہ رب کا جو نظام کائنات کو چلا رہا ہے اگر ہم اسی رب کا نظام اپنی دنیا میں بھی رائج کر لیں جو اس نے ہر زمانے میں وحی کیا تھا لیکن محفوظ صرف قرآن میں ہے، تو اس کے مطابق نظام قائم کرکے ہماری دنیا اور آخرت دونوں خوشگوار ہو سکتی ہیں۔ مومن کی زندگی دنیا اور آخرت دونوں میں کا میاب ہوتی ہے کیونکہ
پرے ہے طرخِ نیلی فام سے منزل مسلمان کی
ستارے جس کے گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
لیکن مذہبی پیشوائیت مسلمان کی زندگی کسمپرسی کی زندگی ظاہر کرتی ہے اور یہ کہہ کر غریب کو تسلی دیتی ہے کہ غریب امیر سے پہلے جنت میں جائے گا اور اگر خود موقع ملے تو جتنا بھی پیسہ جمع کر سکے کرلے بڑی بڑی گاڑیاں بھی اپنے لئے جائز! اور غریب کو غریب ہی رہنے دو جو اپنی مشکلات کے حل کے لئے اس ملا کے در پر آئے، ملا یہ کیوں نہیں کہتاکہ اُٹھو اور اس کائنات کو تسخیر کرلو اور اپنے لئے آخرت اور دنیا دونوں کی خوشیاں سمیٹ لو!
مو جودہ دور میں مولانا طارق جمیل کی مثال ہمارے سامنے ہے، اس طرح کا ملا ہر دور میں مو جود رہا ہے۔ مولانا صاحب نے اپنے بیٹے کی موت پر بھی ویڈیوز بنا کر انتہائی دکھ کے لمحوں کو بھی کیش کروالیا۔
یہی ملا دین کو مذہب میں بدل دیتا ہے وہ دین جو مکمل نظامِ زندگی ہے اگر کوئی کسی دور میں بھی دین کو ٹھیک شکل میں پیش کرتا ہے اس پر کفر کے فتویٰ لگا دئے جاتے ہیں یہ تاریخ بہت پرانی ہے۔
سر سید سے شروع کرتے ہیں جن کا ہماری قوم و ملت پر بہت بڑا احسان ہے جس نے پا کستان کے قیام کی پہلی اینٹ رکھی، ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا!
جب سر سید نے مدرسہ کی بنیاد رکھی تو ہندوستان کے ایک مولوی نے فتویٰ صادر کر دیا کہ "جو لوگ مدرستہ العلوم قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ درحقیقت مسلمان نہیں"۔
لکھنو کے مولوی عبد الحی صاحب نے فرمایا کہ "یہ شخص محربِ دین اور ابلیسِ لعین کا خلیفہ ہے۔ اس کا فتنہ یہودی و نصاریٰ کے فتنے سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو سمجھے"۔
اس سے بھی دل نہ بھرا تو مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں سے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ "یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے کفر کی جانب مائل ہوگیا ہے۔ پس اگر اس شخص نے گرفتاری سے قبل توبہ کر لی اور ان گمراہیوں سے رجوع کر لیا تو قتل نہ کیا جائے، ورنہ اس کا قتل واجب ہے۔ دین کی حفاظت کے لئے، اگر اس کا مدرسہ بن جائے، تو اس کا منہدم کر دینا واجب ہے"۔
لیکن ہمارا دور اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ جو آواز اقبال نے ملا کے خلاف بلند کی، آج وہی آوازیں عام عوام کی زبان سے نکل رہی ہیں۔
میں سید عمران شفقت کا وی لوگ سن رہی تھی جن میں وہ مولانا طارق جمیل کے قول و فعل میں تضاد کا تزکرہ کر رہے تھے۔ یہ صرف ایک فرد واحد کی بات نہیں ہے، ہر ملا یہ ہی کرتا ہے جس کے خلاف سب سے پہلے اقبال نے آواز بلند کی اور اب ایک صدی بعد یہ شعور عام عوام میں بھی آنے لگا ہے۔
قرآن نے مذہبی پیشوائیت کے فتنہ کے سلسلہ میں کہا تھا کہ "یاد رکھو! یہ علماء اور مشائخ عوام کی کمائی مفت میں کھا جاتے ہیں۔ یہ لوگوں سے کہتے یہ ہیں کہ ہم تمھیں خدا کا رستہ دکھاتے ہیں حالانکہ خدا کے راستہ میں سب سے بڑی روک خود یہی لوگ ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس راستہ پر چلنے ہی نہ پائیں جو خدا نے ان کے لئے تجو یز کیا ہے"۔
اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی ازاں اور مجاہد کی ازاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
گر گس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
جو کچھ ہماری مذہبی درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے تو یہاں سے نکلنے والے طالب علموں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ سوئی کیسے بنائی جاتی ہے۔
سائنس کا ان سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا۔
جب کہ قرآن میں جگہ جگہ کائنات پر غورو فکر کی تا کید کی گئی ہے۔
انّ فی خلقِ السماوات و اختلافِ الیلِ و النھار۔ لایات الا اولباب
"زمین و آ سمان کی تخلیق اور رات اور دن کے ادل بدل میں اہلِ عقل کے لئے نشا نیاں ہیں"۔
اسی لئے اقبال نے کہا تھا
قوم کیا چیز ہے قو موں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
لیکن سادہ لوح مسلمان آج بھی ملا کے ہاتھوں بےوقوف بن رہا ہے؟ اپنی مشکلات کے حل کے لئے ان کے در پر جاتے ہیں اس لئے اقبال نے خون کے آنسو روتے ہوئے کہا تھا
خداوند! تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری