Muazzam Aur Uske Bache
معظم اور اس کے بچے
لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی سپوٹر شہید ہوا، شہید اس لئے کہ اس کے نزدیک تو کوئی مقصد تھا جس کی وجہ سے وہ خان صاحب کے ہر عمل کے پیچھے ان کا ساتھ دے رہا تھا، لیکن اس کی زندگی بھی کسی کام نہ آئی، کاش اس کا خون رائیگاں نہ جائے اور باقی لوگوں کو شعور دیتا جائے کہ عوام عام لوگ ہوتے ہیں، ان کی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی، اہم زندگی لیڈروں کی ہوتی ہے جن کی حفاظت کے لئے دو کروڑ سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔
خان صاحب کی سیکیورٹی پر دو کروڑ سے زائد رقم خرچ ہو رہی ہے۔ جو ہم اور آپ کے ٹیکسوں کی کمائی سے لی جاتی ہے۔ جب معظم کے بچے اس کی چارپائی کو ہلا رہے تھے تو میرا دل اس وقت پھٹ گیا تھا اور میں اس قدر پریشان رہی کہ قلم اٹھاتی تھی تو اس کے بچے آنکھوں کے سامنے آجاتے تھے اور لکھ نہیں پاتی تھی۔
پھر جب خان صاحب کے بچے ان کی عیادت کرنے کے لئے آئے اور ان کو آنا بھی چاہییے تھا، اصل بات اس پروٹوکول کی تھی جو عمران خان کے بچوں کو دیا گیا، لاتعداد گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں اور دوسری طرف میری آنکھوں کے سامنے معظم کے بچوں کی تصویریں پھرنے لگیں، اور میں نے ہاتھ اٹھا کر اپنے ربّ سے دعا کی کہ اے اللہ! صرف میرے نوجوانوں کو شعور دے کہ وہ سمجھ جائیں کہ لیڈروں کے نزدیک عام انسان کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اُس زمانے کی بات ہے جب خان صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آدھی سے زیادہ زندگی گزر چکی ہے، اس لئے مجھے کسی بھی چیز کی حاجت نہیں، میں سب کچھ پاکستان کے لئے کر رہا ہوں۔ روزانہ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپسی پر میں زمان پارک کے باہر سے گزرتی ہوں اور حد سے تجاوز سیکیورٹی کو دیکھ کر مجھے بے ساختہ خان صاحب کے الفاظ یاد آ جاتے ہیں۔
میری بچپن سے ہی یہ عادت رہی ہے کہ میں اپنے والدین کی باتوں پر بھی آنکھیں بند کرکے ایمان نہیں لاتی، کیونکہ میرے والدین نے میری تربّیت ہی ایسی کی تھی کہ غلط اور ٹھیک کو جانچنے کا معیار قرآن ہے۔ کوئی بھی سیاست دان اگر یہ کہتا کہ میں نے پاکستان کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں تو وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہوتا ہے، کیونکہ اقتدار اور طاقت کا نشہ انسان کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ میں ان نوجوانوں کو جن کے آئیڈیل خان صاحب ہیں، دورِ خلافت کا واقعہ سناتی ہوں۔
جب بیت المقدس فتح ہوا، اس وقت ابو عبیدہؓ نے آپ کے استقبال کے لئے سواروں کا دستہ بھیجا، اس وقت حالت یہ تھی کہ آپ نمدے کا کرتہ پہنے ہوئے تھے، جس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ اور ان میں بعض چمڑے کے تھے۔ ہمرائیوں نے عرض کی کہ آپ نئے ملک میں اجنبی قوم کے ہاں فاتح کی حیثیت سے جا رہے ہیں۔ بہتر ہو کہ آپ اونٹنی کے بجائے اس ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں اور وہ لباس پہن لیں جسے حضرت ابو عبیدہؓ نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔
آپ نے ان کا مشورہ قبول فرمایا اور آپ لباسِ فاخرہ پہن کر ترکی گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ دو چار قدم ہی چلے ہونگے تو گھوڑے سے اُ تر گئے، اور اپنے رفقاء سے کہا کہ عزیزانِ من، تم میری اس لغزش سے درگزر کرو۔ اللہ قیامت میں تمھاری لغزش سے درگزر کرے گا۔ جس تکبر نے اس وقت میرے دل میں راہ پائی وہ یقیناََ تمھارے امیر کو ہلاک کر دیتے۔ اس کے بعد وہ پوشاک اتار کر پھر وہی پیوند لگے کپڑے پہن لئے۔
آگے گئے تو حضرت ابو عبیدہؓ، خالد بن ولیدؓ اور حضرت یزید بن سفیانؓ آپ کے استقبال کے لئے ریشمی کرتے پہن کر آئے، آپؓ نے دیکھا تو سخت غصہ میں آ گئے اور کہا کہ تم لوگ اتنی جلدی بدل گئے، تم نے دو برس میں اس قسم کی تن آسانی اختیار کرلی، اگر تمھارا یہی طرزِ عمل رہا تو، خدا کی قسم خدا تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا۔ حریر و اطلس پہننے والی قومیں، حکومت کی اہل نہیں رہتیں، انہوں نے معذرت چاہی اور امیر المومنین کو بتایا کہ یہ کرتے ہم نے اوپر سے پہن رکھے ہیں، نیچے وہی ہتھیار موجود ہیں۔
لمبی لمبی قطاریں گاڑیوں کی اور شاندار پروٹوکول، پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کے دل میں تکبر نہ آنے پائے۔ اگر عمرؓ جیسی عظیم شخصیت چند سیکنڈ کے لئے بہک سکتی ہے تو ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟ پچھلے دنوں جب شہباز شریف لندن میں تھے تو گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے ایک شخص نیچے اُترا۔ شہباز شریف جیسے بھی اچھے کام کیوں نہ کرلیں، مجھے تو اتنی سی بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ ایک انسان اپنی گاڑی کا دروازہ بھی خود نہیں کھول سکتا۔
میری اس وقت ان تمام نوجوانوں سے اپیل ہے کہ معظم کے بچوں کو آنکھوں کے سامنے لائیں اور سوچیں کہ بڑے لوگوں کے بچوں کی حیثیت کیا ہے؟ اور آپ کے اپنے بچے اور آپ خود کہاں کھڑے ہیں؟ اگر اب بھی ہم نے سوچنا شروع نہ کیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔