Maadi Quwatein Aur Quwat e Imani
مادی قوتیں اور قوتِ ایمانی
دنیا میں مادی قوتیں نہایت ضروری ہوتی ہیں، لیکن اگر یہی مادی قوتیں قوتِ ایمانی کو کمزور کرنے کا باعث بن جائیں تو قوم کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ حضورصہ نے اپنی جماعت کی تربیت اور تزکیہ، نفس پر بہت زور دیا تھا، لیکن پھر بھی انسان پر بعض اوقات ایسا وقت بھی آ جاتا ہے جب وہ اپنی مادی قوتوں پر بھروسا کرنے لگتا ہے۔ قوتِ ایمانی کے مقابلے میں مادی قوتوں پر بھروسا زیادہ ہو جاتا ہے۔
حضورﷺ کی موجودگی میں غزوہ حنین کے موقع پر مسلمانوں کی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی اور وہ ہر طرح کے ساز و سامان سے آراستہ تھی، اور وہ جس دبدبہ اور طنطنہ سے صفِ آراء ہوئیں کہ بعض صحابہؓ کی زبان پر بے اختیار آ گیا کہ آج ہم پر کون غالب آ سکتا ہے؟ ایمان کی کمزوری کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ انسان قوتِ ایمانی کی بجائے مادی قوتوں پر زیادہ بھروسا کرنے لگ جائے۔
قرآن نے اس واقعہ کو جب چند صحابہؓ کی زبان پر یہ الفاظ آئے تھے کہ "آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے" کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرآن میں جگہ دے دی اور غزوہ حنین کی شکست اور بعد میں فتح کی یاد دلائی۔ بدر اور احزاب کے زمانے میں مسلمان کمزور اور قلیل تعداد میں تھے، اُس وقت اُنہیں بھروسا نصرتِ خداوندی پر تھا، لیکن فتح مکہ کے بعد دو قبیلے ہوازن اور ثقیف ایسے تھے جن کی آتشِ حسد و عداوت بھڑک اُٹھی اور انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔
مکہ اور طائف کے درمیان حنین کی وادی ہے جہاں شوال 8 ہجری میں مسلمانوں اور کفار کے لشکروں کا آمنا سامنا ہوا؟ لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھیں اور بعض صحابہؓ کے وہ الفاظ یاد کریں کہ آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے؟ پہلے ہی حملے میں ایسی شکست کھائی کہ بارہ ہزار کے لشکر کا کچھ پتہ ہی نہ تھا کہ تتربتر ہوگیا۔ چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ دشمنوں کا ریلا بپھرے ہوئے سیلاب کی طرح موجیں مار رہا تھا۔ اپنی فوج شکست کھا کر بھاگ رہی تھی۔
اس عالم میں صرف حضور ﷺ کی ذات تھی جو ہمت اور استقلال سے کھڑی تھی انہوں نے پہلے دائیں طرف مڑ کر آواز دی یا معشرالانصار، اور پھر بائیں طرف مڑ کر، اس آواز میں نہ معلوم کیا اثر تھا کہ بھاگنے والوں کے قدم وہیں رُک گئے، اور فوج پھر سے ایک مرکز پر جمع ہوگئی اور شکست پھر فتح میں تبدیل ہوگئی۔ سورتہ توبہ میں اس واقعہ کی یاد دہانی کروائی گئی تھی یہ کہہ کر کہ تم جب اپنی تعداد کی کثرت پر اِترا گئے تھے تو کیا ہوا تھا؟ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی تھی۔ زندگی کی صحیح روش سے انکار کرنے والوں کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کے لئے تھا، یہ واقعہ رہتی دنیا تک نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے کہ جب بھی وہ خدا کو چھوڑ کر مادی قوتوں پر بھروسا کرتا ہے یا کرے گا اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ بات بحیثیت جماعت اور انفرادی طور پر دونوں دفعہ لاگو ہوتی ہے۔ جب انسان رب پر بھروسا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہر طرح کے سامان سے بھی آراستہ ہوتا ہے تو پھر بقول اقبال
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔