Kaya Hum Azad Hain
کیا ہم آزاد ہیں
خان صاحب ہمیں آزادی کے لفظ سے بار بار آشنا کراتے رہتے ہیں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ کیا ہم غلام ہیں؟ میں نے کالام کی سیر کے دوران ایک بات محسوس کی کہ KPK میں کبھی رکشوں کے پیچھے کبھی ویگنوں کے پیچھے لکھا ہوتا تھا کہ کیا ہم غلام ہیں؟ کبھی لکھا ہوتا تھا absolutely not ہمیں آزاد ہوئے 75 برس ہو گئے۔
لیکن ہم آج تک آزادی کا مفہوم ہی سمجھ نہیں پائے، نوجوانوں کو جو مفہوم خان صاحب نے سمجھایا وہ اس کو حرفِ آخر سمجھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، خقیقت تو یہ ہے کہ خان صاحب کو تو خود پتہ نہیں کہ آزادی کا مطلب کیا ہے؟ آزادی کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگائیں، جب حضور ﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
آپ نے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اس دن بنی اسرائیل نے فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی، تو ہم اس واقعہ کی یاد میں جشن مناتے ہیں اور شکرانے کا روزہ بھی رکھتے ہیں تو حضور ﷺ نے صحابہ سے کہا پھر تو ہمیں بھی اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے کہ انسانی استبداد سے نجات حاصل کرنا صرف اس قوم کے لئے ہی وجہ مسرت نہیں ہوتا، جو آزادی حاصل کرتی ہے یہ تو پوری انسانیت کے لئے موجبِ فخر و مسرت ہوتا ہے۔
اس لئے ہمیں بھی اس میں شریک ہونا چاہیے۔ قرآن میں ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ دین کیا ہے؟ دین ہے عقبیٰ اور عقبیٰ کا مطلب ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا جو بہت دشوار ہوتا ہے، پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے سانس بھول جاتی ہے یہ عمل استقامت چاہتا ہے، اور عقبیٰ یہ ہے کہ انسانوں کو آزادی دلانا، یہ دین ہے، نوعِ انسانی کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانا کہ انسان انسان کے سامنے نہ جھکے نہ اپنی کسی ضرورت کے لئے۔
لیکن ہم تو معاش کے دھندے سے ہی نکل نہیں سکے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے پل پل انسانوں کے آگے جھکتے ہیں۔ دین یہ تھا کہ انسان انسان کے آگے نہ جھکے، اپنی کسی بھی ضرورت کے لئے، اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار اسلامی ریاست کی ہوگئی، کسی کے پاس زائد از ضرورت کچھ نہیں ہوگا، زائد رکھ کر آپ نے کرنا بھی کیا ہے۔ جب آپ کی تمام زمہ داریاں اسلامی ریاست پوری کر رہی ہے۔
ذرا تصور میں لائیں وہ وقت جب آپ کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں کہ آپ نے بچوں کی فیس دینی ہے، کوئی بیمار ہو گیا ہے دوائی کے پیسے نہیں، آپ نے اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنا ہے، بدلے میں ریاست نے آپ کی تمام ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری لینی ہے۔ ذرا تصور میں لائیں اس قسم کے جنتی معاشرہ کو، اب ان میں سے بہت سے حضرات یورپ کے بہت سے ممالک کا حوالہ دیں گئے۔
لیکن اسلامی ریاست میں تو انسانوں کے مابین کامل مساوات ہوگئی، اس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا لیکن پھر پاکستان آکر ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
باقی نہ رہی وہ تیری آئینہ ضمیری
گشتہّ سلطانی، ملائی و پیری
لیکن میں پر اُمید ہوں اور ہمیشہ رہتی ہوں، اسلامی ریاست اسی مملکت نے بننا ہے، اگر یہ میری زندگی میں بن گئی تو میری خوش قسمتی ہوگئ، بننا تو ہے، یومِ آزادی مبارک۔