Kashti Walon Ki Misal
کشتی والوں کی مثال
پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ جس کا سامنا ہر دور میں چاہے وہ خان صاحب کا دور ہو، چاہے پیپلز پارٹی کا، چاہے مسلم لیگ کا دور ہو، غریب عوام ہی سب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جس کی اصل وجہ ہے کہ جس خواب کو پورا کرنے کے لئے ہم نے پاکستان بنایا تھا وہ ہم پورا نہیں کر سکے۔ ہم نے وہ اسلامی ریاست بنانی تھی وہ انقلاب لے کر آنا تھا، جس کے بارے میں جاوید نامہ میں اقبال نے بڑے دلکش انداز میں اس حقیقت کو "نوحہ روحِ ابوجہل اور حرمِ کعبہ" میں پیش کیا گیا ہے۔
ابوجہل اپنے معبودانِ لات و منات و ہبل کو نہایت عجز و الحاح سے پکار کر ان کے حضور یوں کناں ہوا: یہ وہ انقلاب ہے جسے نیا دین ہماری معاشرتی زندگی میں لانا چاہتا ہے، اور جو تبدیلی یہ معاشی زندگی میں لانے کا مدعی ہے، وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، وہ طبقاتی امتیاز مٹانا چاہتا ہے اور تمام انسانوں میں اس قسم کی مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے امیر و غریب کا فرق ہی مٹ جائے۔
یہ خالص مزدکیت (پارس کی کمیو نیزم) ہے جسے محمد نے سلمان فارسی سے سیکھ لیا ہے۔ یہ الفاظ بہت ہی غور طلب ہیں کہ محمد کامل مساوات لانا چاہتا ہے اور ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس سے امیر اور غریب کا فرق ہی مٹ جائے۔ اب ہم معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور ہمیں مشورے کیا دئے جا رہے ہیں کہ ہم چائے کی دو پیالیوں کی جگہ پر ایک پیالی پی لیں۔
یہ مشورہ احسن اقبال نے دیا اور پچھلی حکومت کے امین گنڈا پور اور بہت سے وزراء، کوئی چینی کم کھانے کا مشورہ دیتا ہے اور کوئی روٹی کم کھانے کا۔ یہ مشورے بڑے بڑے محلات میں رہنے، بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے والے اور اعلیٰ کھانے کھانے والے ہمیں دے رہے ہیں، خود ان کی زندگیوں میں رائی برابر بھی تبدیلی نہیں آتی۔ جس کی دال روٹی آگے ہی مشکل ہو رہی ہے اس کو مزید گلا گھوٹنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
اور جو وزراء اعلیٰ طرز کے کھانے، کھانے کے لئے ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ اور ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں ان کو کوئی کفایت شعاری کا مشورہ نہیں دیتا جو ہماری ٹیکسوں کی رقم سے عیش کرتے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو بھٹو نے بھی لگایا تھا لیکن ان کی اپنی زندگی شاہانہ تھی، اور آج کل ریاستِ مدینہ کے دعویدار خان صاحب ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اُ ترتے۔
شہباز شریف جن کی خواہش پاکستان کو راکٹ کی طرح اوپر لے جانے کی ہے۔ ان کو جنون ہے کام کرنے اور پاکستان کو اوپر لے جانے کا اور اگر ان کو موقع ملا تو وہ اوپر لے بھی جائیں گے، لیکن قائدِاعظم اور اقبال کے خواب والا پاکستان بنانے کے لئے انھیں جاتی اُمراء سے نکل کر عام زندگی گزارنا ہو گی، جس کی مثال لیاقت علی خان ہمیں دے چکے ہیں جنھوں نے چھ گاؤں کے مالک ہونے کے باوجود عام آدمی کی سطح پر زندگی گزاری۔
ساری آسائشیں چھوڑ دیں، رعنا لیاقت علی خان بتاتی ہیں کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو جو چینی ملتی تھی وہ پندرہ دنوں میں ختم ہو جاتی تھی اور بچوں اور مہمانوں کو پھیکی چائے دی جاتی تھی۔ پاکستان کے تمام مسائل لیاقت علی خان جیسا وزیرِاعظم ہی حل کر سکتا ہے جو ایسی کابینہ بنائے جس کے تمام وزیر عام لوگوں کی سطح پر زندگی گزاریں، اس پر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ باتیں قابلِ عمل نہیں۔
پاکستان کا قیام بھی نا ممکنات میں سے تھا لیکن ایک مردِ مومن نے اقبال کے اس خواب کو سچ کر دکھایا، اس لئے کہ اس میں اسی قسم کا نظام رائج کیا جانا تھا، اسی لیے تو یہ دنیا کی نظروں میں کھٹکتا رہا اور اب تک کھٹک رہا ہے، لیاقت علی خان کوئی مریخ سے نہیں آئے تھے۔ نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمیں اسی نظامِ زندگی کی طرف جانا ہو گا ورنہ مجھے رسول ﷺ کی وہ مثال یاد آ رہی ہے۔
کچھ لوگ ایک کشتی میں سوار ہوۓ۔ ان میں سے کچھ اُوپر کے حصے میں پہنچ گئے، کچھ نچلے حصے میں تھے وہ پانی لینے کے لئے اوپر گئے، اُوپر والوں نے انھیں یہ کہہ کر پانی لینے سے روک دیا کہ اس سے انھیں تکلیف ہوتی ہے۔ نیچے والوں نے کہا کہ بہت اچھا، ہم نیچے سوراخ کر کے پانی حاصل کر لیں گے۔ اب اگر نیچے والوں کو پانی دے کر اس سے باز نہ رکھا جائے تو ظاہر ہے کہ اوپر اور نیچے والے سب غرق ہو جائیں گے۔ (تر ندی- جلد دوم۔ ابواب متن)
یہ اُصول تمام دنیا پر لاگو ہوتا ہے۔
اگر ہمیں پاکستان کی کشتی کو بچانا ہے تو اوپر اور نیچے والوں میں توازن پیدا کر کے دنیا کے لئے مثال بننا ہو گا-