Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Islami Riyasat Ab Kon Banaye Ga?

Islami Riyasat Ab Kon Banaye Ga?

اسلامی ریاست اب کون بنائے گا؟

عدل کیا ہے؟ انصاف کیا ہے؟ اور دنیا کی کون سی عدالت ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اُس کے فیصلے عدل پر مبنی ہیں؟ ایک ملک اور قوم کے لئے بعض اوقات ایک فیصلہ عدل ہوتا ہے اور وہی فیصلہ دوسری قوم اور ملک کے لئے بے انصافی پر مبنی ہوتا ہے۔ جو کچھ کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جس طرح بےگناہوں کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے یہ سب اُن کے قانون کے مطابق درست ہے۔

یہی کچھ ہمارے قانون کے مطابق ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہے، کیونکہ بےشک پاکستان میں کسی آئین کا عملی طور نفاذ نہیں کر سکے، آئین تو ہے لیکن نفاذ نہیں ہے؟ کوئی بھی مسلمان، خواہ کسی بھی دنیا کے کونے میں کیوں نہ بستا ہو، وہ انسان خواہ وہ مسلمان ہو یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اُس پر ظلم کو جائز قرار نہیں دے سکتا، نہ صرف ظلم کو ناجائز قرار دیتا ہے بلکہ اس کی مدافعت کے لئے جنگ کو بھی فرض قرار دیتا ہے۔

یہ ہے ہمارا آئین۔ اِسی پاک وطن میں ہماری عدالتیں آئے دن ایسے فیصلے دیتی رہتی ہیں، جن سے انصاف کا خون ہوتا رہتا ہے۔ بہت سے فیصلے طاقت کو استعمال کر کے دئے جاتے ہیں۔

عالمگیر شہرت کا حامل دانشور اپنی کتاب the making of humanity میں لکھتا ہے۔ "کوئی نظام جس کی بنیاد باطل اُصولوں پر ہو، کبھی قائم نہیں رہ سکتا، وہ نظام جس میں حق و صداقت کو نظر انداز کر دیا جائے، آخرالامر تباہ ہو کر رہتا ہے۔ "

برفا نے کسی نظام کی کامیابی کے لئے عدل کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ برفا کہتا ہے کہ جو فیصلہ ملک کے مروجہ قانون کے مطابق ہو، وہ عدل کہلائے گا۔

برفا یہاں تک تو پہنچ گیا کہ ناانصافی پر مبنی نظام تباہ ہو کر رہتا ہے اور ملک کے قانون کے مطابق فیصلہ عدل کہلاتا ہے۔ لیکن وہ یہاں تک نہیں پہنچ سکا، جہاں تک ہمیں قرآن لے کر جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ قانون کے مطابق فیصلے کو عدل کہا جائے گا، لیکن جس قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اگر وہی عدل پر مبنی نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کو عدل کیسے کہا جائے گا؟

اس لئے ملک کے قوانین کو "الحق" کے مطابق ہونا چاہیے، اور الحق صرف وحی خداوندی کے اندر اب بھی محفوظ ہے اور نظام کی شکل میں اس کا عملی مظاہرہ ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کے دور میں ہم عملی طور پر دیکھ چکے ہیں اور جو مفکر اور تجزیہ نگار اگر ہمارے ہاں بار بار اس بات کو دوہراتے ہیں کہ ہماری گرفت مذہبی معاملات میں کمزور ہے تو معذرت کے ساتھ، اس پاک وطن سے تعلق کی بنیاد پر جس کا مطالبہ کیا ہی اس بناء پر گیا تھا کہ ہم اس ریاست میں اسلام کے اُصولوں کو آزمائیں گے۔

اس لئے براہِ کرم سوچیں، اس ریاست میں دین اور سیاست الگ نہیں ہو سکتے۔ یہی بات میں سب دانشوروں کے گوش گزار کرنا چاہوں گی، کیونکہ وہ اگر علماءِ کرا م کی طرف رجوع کریں گے کہ مذہبی معملات میں ان کی گرفت زیادہ ہے تو کچھ بھی نہیں ہو پائے گا کیونکہ یہ کتاب ہم سب مسلمانوں پر نازل ہوئی ہے اگر ہم صدقِ دل سے اس سے راہنمائی حاصل کرنا چاہیں گے تو ہمیں ربّ راہنمائی ضرور دے گا۔ اقبال نے کہا تھا۔

اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ

دوبارہ معذرت کے ساتھ کہ حقائق بہت تلخ ہیں۔ اگر ان علماء کے بس میں ہوتا تو ہم آج پاکستان کے مالک نہ بنے ہوئے ہوتے۔ یہ پاکستان قائدِاعظم اور اقبال کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کا آغاز سرسید احمد خان نے کیا تھا اور سرسید تمام مذہبی پیشواؤں کے نزدیک نیچری، ملحد اور لادین اور کافر تھے۔ علماء کا خیال تھا کہ اگر ہمیں نماز، روزہ کی ہندوستان میں اجازت ہے تو ہمیں الگ ملک کی ضرورت نہیں۔ اس کے جواب میں علامہ اقبال کا معرکہ دین و وطن مشہور ہے۔

ہے ہند میں ملا کو جو سجدے کی اجازت

نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

آخر میں اس غور طلب درخواست کے ساتھ کہ کوئی دانشور یا تجزیہ نگار یہ نہ کہے کہ ہماری مذہبی معملات پر گرفت بہت کمزور ہے، قرآن سب کے پاس ہے، اگر ہم جائے نماز پر بیٹھ کر اپنے ربّ سے کسی بھی معاملے کے لئے راہنمائی طلب کریں تو ضرور ملے گی اور اگر ہم یہ سوچتے رہے کہ ہماری مذہبی معاملات پر گرفت کمزور ہے تو اسلامی ریاست کون بنائے گا، کیونکہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہمارے دین میں مذہب اور سیاست الگ الگ نہیں ہیں۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat