Iqbal Aur Pakistan
اقبال اور پا کستان
فاطمہ خوشی سے چیختی ہوئی آئی کہ ماما، کل اقبال ڈے کی چھٹی ہے۔ اقبال ڈے کی چھٹی بحال ہوگئی جو کہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ اقبال کو بحیثیت مضمون بچوں کو پڑھایا جانا چاہیے، کیونکہ اقبال ہی نے پہلی مرتبہ قرآن کی آواز سے فضا کو معمور کیا۔ ایک طرف اقبال پر ملا حضرات کفر کے فتویٰ لگاتے رہے اور اب تقریباً ہر مسجد اور منبر سے ملا حضرات کی زبانوں سے اقبال کے شعر گونجتے ہیں۔ اس سے بڑی کامیابی کوئی ہوسکتی ہے؟ حق حق ہوتا ہے اور بالآخر غالب آتا ہے۔ عالمِ اسلام نے اس سے پہلے ایسا مفکر پیدا نہیں کیا۔ کلامِ اقبال کا سر چشمہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے قرآن۔
قرآن کی تعلیم کی بنیاد ان دو لفظوں میں سما سکتی ہے۔
لا الہ۔ الا اللہ
اس کلمے کے دو حصے ہیں، اس حقیقت کا اعتراف کہ دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے سامنے جھکا جائے اور جس سے مرادیں مانگیں جائیں یہ نفی کا پہلو ہے کہ ذہن غیر خدائی قوتوں سے پاک ہو جائے۔ اقبال نے اسی لئے کہا تھا۔
بیاں میں نقطہ توحید آ تو سکتا ہے
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیں
جب آپ دوسرے آقاؤں سے رُخ نہیں موڑ لیتے، نئے آقا کی غلامی اختیار نہیں کر سکتے۔
اب خان صاحب کا ذکر اپنے آپ ہی آ جاتا ہے، میں کیا کروں؟ اس میں خان صاحب اس لئے قصور وار ہیں کہ وہ تواتر سے اقبال کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور خود در در جھکتے ہیں۔ پیروں اور پیرنیوں کی باتوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ صدقِ دل سے ان پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔ یہ واقعات گاہے بگاہے اخبارات میں پڑھتی رہتی ہوں۔ انھوں نے لانگ مارچ منگل کی بجائے بدھ کو کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ بدھ ان کے لئے زیادہ مبارک تھا۔
سب دن رب کے بنائے ہوئے ہیں۔ ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جن کے لئے الگ کالم کی ضرورت ہوگی۔ خان صاحب اگر صرف ایک خدا پر بھروسا کرتے تو خان صاحب کی زندگی کافی بہتر ہوتی۔ پورا پاکستان جادو ٹونوں پر چلتا رہا، ذہن کو غیر قرآنی تصورات سے پاک کرنے کے بعد ذہن میں اللہ آتا ہے کہ
نہادِ زندگی میں ابتدا لاّ انتہا الا
پیامِ موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ
جب میں کہتی ہوں کہ بچوں کو اقبال بحیثیت مضمون پڑھایا جائے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بات تو بچے بچے کی زبان پر قیامِ پاکستان کے وقت تھی کہ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا اِلٰہ۔ الا اللہ
یعنی ایسی مملکت بنائی جائے گی جہاں حکمرانی صرف اللہ کی کتاب کی ہو گی اس میں پاکستان کے مطالبہ کو حق کہتی ہوں اور اس کے لئے لڑنے والوں اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کو اسی لئے شہادت کا رتبہ دیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ 75 سال ہونے کے باوجود ہمیں کوئی مردِ مومن نہ مل سکا جس نے قائدِاعظم کی طرح ہمیں چند سالوں میں پاکستان لے کر دے دیا۔ ہزار ہزار دانوں کی تسبیخ پڑھنے کے باوجود ہمیں"لا الٰہ۔ الا اللہ" کا مطلب اقبال جیسے مردِ مومن نے سمجھایا۔ جب ہمارے بچے لا الٰہ کا مطلب سمجھ جائیں گے تو ان کی کیفیت یہ ہو گی۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتیں ہیں تقدیریں
یورپ کا مادہ پرست انسان کی پرواز زیادہ سے زیادہ کسی قریبی ستارے مثلا مریخ وغیرہ تک سمجھتا ہے اور وہ بھی جسمانی پرواز، لیکن قرآن انسان کو بہت اونچا لے جاتا ہے۔ ایسے مبارک درخت کی طرح جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں۔ اقبال قرآن کے مردِ مومن کے لئے کہتا ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم و رنگ و بو پر
چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اِسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
مومن کی زندگی کا موت کے ساتھ خاتمہ نہیں ہو جاتا، وہ آگے چلتی ہے اور اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔ یہ ہے قرآنی تعلیم کا نقطہ ماسکہ جسے اقبال نے اپنے شعروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ اقبال کی شاعری ایسا سمندر ہے جس کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ اور اقبال کا نام جب آتا ہے تو میرا قلم رکنے کا نام نہیں لیتا۔ آخر میں میں بچوں کو یہ کہنا چاہوں گی کہ پاکستان جس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے خدارا اس کو سمجھ لیں، تاکہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ قرآن
گرہ کشاہ ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف