Hamari Masajid Aur Masjid e Zarrar
ہماری مساجد اور مسجدِ ضرار
منا فق کو پہچاننے کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ آپ کو انھیں ان کے رویوں سے خود پہچاننا ہوگا۔ میں سورت توبہ پڑھتے ہوئے آ گئے گئی تو مسجدِ ضرار کے واضح ذکر پر رُک گئی اور گہری سوچ میں ڈوب گئی کی اتنی واضح ہدایت اور راہنمائی کے باوجود ہم خدا کو دھوکا کیسے دے سکتے ہیں قرآن نے ہمارے ہی جیسے لوگوں کے لئے کہا ہے کہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا یہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، بات بھی بالکل ٹھیک ہے۔ ہم رمضان کے مہینے میں پورا قرآن ختم کرتے ہیں اس دوران کیا سورت توبہ کی یہ آیات نہیں آتیں ہونگیں؟ ضرور آتی ہیں۔
بس میں سفر کرتے ہوئے ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ آپ مسلمان ہیں؟ اس نے کہا جی الحمدُ للہ اس پر مزید پوچھا گیا کہ سنی یا شعیہ اس نے جواب دیا کہ سنی اس پر پھر سوال داغا گیا کہ سنی یا اہلِ حدیث اور سوال پر سوال اہلِ فقہ یا حنفی یا بریلوی یا دیو بندی۔۔
اس شخص نے جواب دیا کہ معاف کرو غلطی ہوگئی جو اپنے آپ کو مسلمان کہہ بیٹھا!
مدینہ میں مسجد تعمیر ہو رہی تھی۔ مسجد کی تعمیر! کیا اچھا اقدام ہے۔ اس کے بدلے میں جنت میں موتیوں کا گھر ملنے والا ہے۔ وہاں پہلے صرف ایک ہی مسجد تھی اب ایک اور مسجد بن رہی ہے۔ مسجد بنانے والے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ اس مسجد کا افتتاح کریں لیکن اللہ نے حضور ﷺکو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا اور منافقین کی سازش کو بے نقاب کر دیا۔ سورت توبہ کی آیت 107\9 میں ہے
"اور ان منافقین میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک مسجدِ تعمیر کر ڈالی لیکن اس مسجد سے درحقیقت ان کی غرض یہ تھی کہ اس سے نظام کو نقصان پہنچایا جائے اور کفر کی راہیں کشادہ کی جائیں، یعنی مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر دیا جائے اور اس طرح یہ مسجد ان لوگوں کے لئے کمین گاہ بن جائے جو پہلے سے نظامِ خداوندی کے خلاف مصروفِ پیکار ہیں۔ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم نے اس مسجد کو بڑی نیک نیتی سے تعمیر کیا ہے۔ لیکن خدا اس کی شہادت دیتا ہے کہ یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں۔
اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں، اپنے ملک کی تمام مساجد کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ مسجد کے باہر کیا لکھا ہوگا؟
اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کو "خدا اور رسولﷺ کے دشمنوں کی کمین گاہ" قرار دیا ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ کو ہدایت کی گئی کہ "تم اے رسولﷺ! اس مسجد میں قدم نہ رکھنا (جو مسجد مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر دے کیا وہ اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس میں قدم رکھا جائے؟ تمھارے ان لوگوں سے کچھ واسطہ ہو سکتا ہے، نہ ان کی تعمیر کردہ مسجد سے کوئی تعلق"۔ 108\9
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اس وقت کے مسلمانوں کے لئے تھے، ہمارے لئے نہیں ہے اور مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خدا کا دعویٰ ہے کہ یہ رہتی دنیا تک ہماری لئے راہنمائی ہے۔ اب بھی زندگی کے کسی شعبے میں بھی ہم اگر چاہیے تو اپنے رب سے اس کتاب کے زریعے راہنمائی لے سکتے ہیں!
مجھے سورت توبہ کی یہ آیت ٹھیک اس دور کے متعلق بھی لگتی ہیں جب میں بہت پیچھے جا کر پاکستان کی تاریخ کھنگالتی ہوں تو!
"25 اگست 1977 کی شام، پا کستان متحدہ محاز کے بڑے بڑے لیڈر جب افطاری کرنے لگے، تو اسلامی اخوت اور نظامِ مصطفیﷺ کے قیام کے دعوے داروں کے درمیان ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یہ لیڈر جب افطاری کر چکے تو نماز کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور لوگ وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دیو بندی فرقہ کے مفتی صاحب دس بارہ آ دمیوں کو لے کر ایک طرف چل پڑے اور ان نمازیوں کی امامت مفتی صاحب نے کی جبکہ بریلوی فرقہ کے نما ئندے جماعت اسلامی کے ارکان دوسری طرف کھڑے ہو گئے اور انہوں نے الگ جماعت کرائی۔ (مساوات 26: اگست 1977} مقام۔۔ چودھری ظہور الہی کی رہائش گاہ)
ایک اور واقعہ بھی سن لیں جو 15 اگست 1978 کی معاصر ایشیاء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ بریلوی فرقے کے تین حضرات 13 اکتوبر 1977جمعرات کو جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کے لئے گئے تا کہ دارو العلوم اور ایک مسجد کا سنگِ بنیاد اُن سے رکھوا یا جائے۔ باتوں باتوں میں جنرل ضیاء نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ بڑے وسیع القلب ہیں، آپ میں بڑی رواداری ہے۔ آپ میں بڑی فراخدلی ہے اور پھر فر مانے لگے کہ اس فراخدلی کا نتیجہ یہ ہے کہ جب آپ سہالہ میں تھے، قید کے ان لمحات میں رواداری اور وسعتِ قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلاں صاحب کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب جنرل صاحب کی بات ختم ہوگئی تو مولانا صاحب نے عرض کیا کہ جنرل صاحب بڑا افسوس ہے آپ کو غلط اطلاعات دی گئیں۔ ہم میں الحمدُ للہ بڑی وسعتِ قلبی ہے لیکن گستاخِ رسول کے لئے کوئی وسعت نہیں۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امامِ اہلِ سنت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کا لکھا ہوا مجموعہ فتاویٰ حسام الحرمین کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں علماء حرمین شریفین کے فتاویٰ مو جود ہیں اور ہم الحمدُ للہ اس فتوے پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی شخص ہو، خواہ ڈیرہ اسماعیل خان کا ہو، ملتان کا ہو، اچھرے کا ہو، کسی شاتمِ رسولﷺ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اور میں نے کہا جنابِ والا! یہ چار چار ٹکے کے لوگ ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کو یہ غلط اطلاع ملی ہے۔ ہمارے مسلک میں ایسی رواداری، فراخدلی اور وسعتِ قلبی نہیں ہے۔ ہم تو امامِ حرمین شر یفین کے پیچھے بھی نماز نہیں پڑھتے۔
قومی اسمبلی میں بھی اذان ہوتی تھی، ان لوگوں کا رُخ ایک طرف ہوتا اور ہمارا رُخ ان سے دوسری طرف اس کے دیکھنے والے ایک نہیں دو نہیں بے شمار لوگ ہیں"۔
یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے کہ ہماری مساجد کیا ہیں؟
مساجد اسلامی نظام میں پارلیمان کا درجہ رکھتی تھیں اور مشاورت اور تمام اہم فیصلے یہاں ہی کیے جاتے تھے۔ ہم نے دین کو دین رہنے ہی نہیں دیا! اقبال نے ہمارے ملا کے متعلق ہی کہا تھا
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیان اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
کاش ہماری مساجد اللہ کا گھر بن جائیں، فرقوں کی آماجگاہ نہیں!
پچھلے دنوں ہی رمضان گزرا ہے اور مسلمانوں نے خوب عبادات کیں لیکن نا جانے کب ہماری مساجد اللہ کا گھر بنیں گئیں!