Brahmin Aur Shoodar Ki Kahani
برہمن اور شودر کی کہانی
ایک لفظ جو گوہر بٹ کے وی لوگ میں توا تر سے استعمال ہوتا ہے اور عام عوام کو جو زیادہ تر متوسط طبقہ یا اس سے بھی نیچے کا طبقہ ہوتا ہے, جو محنت تو بہت کرتا ہے لیکن اس کو ملتا کچھ نہیں ہے اور ایک فی صد طبقہ یا زیادہ سے زیادہ دو فی صد طبقہ جو اپنی دولت کے بل بوطے پر باقی 98 فی صد کی محنت پر عیش کرتا ہے۔ اس لئے گوہر بٹ تواتر سے برہمن اور شودر کا لفظ استعمال کرتے چلے آئے ہیں جو حقیقتاً اس 98 فی صد طبقہ کی آواز ہے اور ان کے دل میں جا کر لگتی ہے۔
لیکن یہ سر مایہ دار طبقہ اور عام عوام اور ان کی کشمکش کا سلسلہ آج سے نہیں بلکے حضرت نوحؑ کے زمانے سے جاری ہے اور اللہ اپنے نبی ہر زمانے میں بھیجتا رہا ہے کہ یہ نظام غلط ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے۔ یہ ذرائع اللہ کے ہیں ان پر قبضہ غلط ہے، لیکن کچھ وقت کے لئے اللہ کا نظام قائم ہو جاتا پھر انسان اللہ کے پیغام کو بھول کر پھر سرمایہ داری کے چکر میں پڑ جاتا۔ حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ مجھے نماز کی اجازت دیجئے جو انھوں نے خوشی خوشی دے دی ان کا خیال تھا کہ شعیبؑ کی نماز کی نماز سے کیا فرق پڑتا ہے، عبادت کا طریقہ ہے پڑھ لینے دو، لیکن پھر جب شعیبؑ نے انھیں زیادہ مال جمع کرنے سے روکا تو وہ کہنے لگے کہ تمھاری یہ نماز کس قسم کی ہے جو ہمارے مال کو بھی اپنی مرضی سے خرچ نہیں کرنے دیتی۔
حضورﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایسا نظام قائم کر دیا جائے جس میں تمام انسان برابر ہوں، اور روٹی کے لئے کوئی کسی کا محتاج نہ ہو سورت بلد میں ہے کہ اّو اطعٰمُ فِی زی مُسغبُ (90: 14) سرمایہ داری کا نظام ختم کرنے کے لئے میں اُٹھا ہوں۔ زی مّسغّبّتة کے الفاظ آئے ہیں مستغّبتہِِ کے الفاظ آئے ہیں مّسغّبّتِ اس بھوک کو کہتے ہیں جس میں تکان بھی شامل ہو۔ دن بھر محنت کرنے کے بعد اتنا نہ مل سکے کہ اس کی بھوک مٹ جائے! کیا بات ہے قرآن کے الفاظ کے انتخاب کی، قرآن باطل کے سارے نظام ختم کر دیتا ہے۔
قرآن نے خصوصیت سے فرعون کے اس دعویٰ کا زکر کیا کہ سورت نازعات میں ہے کہ جب اّنا رّبُکُم الااعلیٰ 79: 24 یعنی میں تمھارا، ان داتا، ہوں۔ تمھاری روٹی میرے ہاتھ میں ہے اور اس کے ثبوت میں اس نے یہ کہا تھا کہ مصر کی یعنی اس ملک کی، یہ زمینیں، اس میں یہ جو نہریں بہتی ہیں بتاو کہ یہ کس کی ملکیت ہیں؟ اور پھر خود ہی کہا تھا کہ ہماری ہیں اور جب یہ رزق ہماری ملکیت میں ہیں تو تمھارا جو رزق ہے وہ ہماری ملکیت ہے، ہم تمھارے رزق کے دینے والے ہیں۔ یہ دعویٰ تھا ربوبیتِ اعلیٰ کا!
فرعون آج بھی ہے! جب جب انسان اللہ کی دی ہوئی زمین پر اور اِسی کی دی ہوئی دولت پر اپنا ذاتی قبضہ کرتا ہے تو یہ فرعونیت ہے اور دین میں اس کی اجازت نہیں!
بٹ صاحب سے نہایت معزرت کے ساتھ بے تحاشا دولت کا مالک چاہے بھٹو ہو! چاہے نواز شریف، چاہے تین سو کنال اراضی پر مشتمل عمران خان کا بنی گالہ! یہ سب دین سے جنگ ہے! بٹ صاحب اس ملک کو صرف ایک مردِ مجاہد ملا تھا لیاقت علی خان۔ وہ جھ گاؤں کے مالک تھے لیکن پا کستان آنے پر انھوں نے کچھ بھی کلیم نہیں کیا تھا، اور ان کی وفات کے وقت وہ پا کستان کے واحد وزیرِ اعظم تھے جن کے پاس کفن دفن کے لئے بھی رقم مو جود نہیں تھی۔ پیلپلز پارٹی کو معراج خالد جیسا وزیرِ اعظم ملا مگر شاید ان کو پارٹی کی بہتر کارکن کے طور پر پیش کرکے فائدہ اُٹھایا گیا لیکن قدر نہ ہو سکی! پیپلز پارٹی کو بہت مخلص کارکن ملے جو اب تک بھٹو کا یہ نعرہ
روٹی کپڑا اور مکان
لے کر رہے گا ہر انسان
پر جیتا ہے، لیکن غریب اب بھی غریب ہے اور تب بھی غریب تھا۔ ہم غریبوں کو خیرات اور زکٰوة تو دے سکتے ہیں لیکن اللہ کی زمین پر ہم اللہ کی ملکیت تصور نہیں کرتے، ورنہ غریب کو زکٰوة اور خیرات کی ضرورت نہ پڑٹی۔
بٹ صاحب! آپ بھٹو کے لئے soft corner رکھتے ہیں میں نواز شریف کے لئے اور بہت سے لوگ عمران خان کے بنی گالہ کو defand کرتے ہیں۔ اقبال بہت خوب کہہ گئے ہیں!
پالتا ہے بیچ کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادساز گار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آ فتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی خوِئے انقلاب؟
اوہ خدایا! یہ زمین، تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آباء کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
اقبال سرمایہ داری کی تباہ انگیزیوں کے خیلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ اُمراء کے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
پھر خدا سے فریاد کرتے ہیں
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر یومِ مکافات
دنیا آج بھی یومِ مکا فات کی منتظرہے!