Bachon Ka Aalmi Din
بچوں کا عالمی دن
پچھلے دنوں بچوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اُس وقت میرے ذہن میں ناصرف اپنے ملک کے بلکہ دنیا بھر کے بچے گھومنے لگے۔ قدرتی آفات کے ستائے ہوئے بچے بھوک، افلاس کا شکار، کبھی سڑک پر بھیک مانگتے ہوئے بچے، کہیں مختلف اشیاء بیچتے بچے، روزگار کے لئے مارے مارے پھرنے والے بچے، جو آپ کو باآسانی سڑکوں پر نظر آجائیں گے، جو شاید ہر ایک کو نظر آتے ہیں، صرف اُن کو نظر نہیں آتے جن کو نظر آنا چاہیے۔
عالمی دن تو سب بچوں کا ہے۔ چاہے وہ محل میں آنکھ کھولیں، چاہے سڑک پر، بے یارومدگار، سب بچے خالی ہاتھ دنیا میں آتے ہیں، چاہے فقیر کا بچہ ہو چاہے ارب پتی انسان کا۔ لیکن ارب پتی انسان کا بچہ پیدا ہوتے ساتھ کروڑوں کا مالک بن جاتا ہے اور فقیر کا بچہ ہاتھ پھیلائے سڑکوں پر پھرنے لگتا ہے۔ جب میں اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتی ہوں تو ایک ہی لائن میں دو تین سکول ہیں ایک گورنمنٹ سکول، دوسرا علی گڑھ، تیسرا بیکن ہاؤس۔
لیکن سب سے زیادہ تکلیف والی بات جو میری لیے ہوتی ہے وہ یہ کہ میں روزانہ جس طبقاتی فرق کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں، یہ فرق اللہ کے نام پر حاصل کی گئی مملکت میں تو کم از کم نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے روزانہ یہ فرق نظر آتا ہے۔ لیکن میرے پاس نہ تو اقتدار کی قوت ہے اور نہ کوئی جادو کی چھڑی جو میری شدید خواہش کو پورا کرکے اس طبقاتی تفریق کو بدل سکتی۔ کاش! مانگنے والوں کو سکول بھیج سکتی۔
وہ مساوات رائج کر سکتی، جس میں سب بچوں کی صلاحیتیوں سے فائدہ اُٹھایا جائے، لیکن ایسا ہوتا نہیں، اکثر اوقات بہت سے بچوں کی صلاحیتیں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر تم کسی گرتی ہوئی قوم کو سنبھالنا چاہتے ہو تو اُس کی اُبھرنے والی نسل کو سنبھال لو۔ اگر تم نے آنے والی نسل کے دل و دماغ کی تربیت صحیح خطوط پر کر دی تو قوم خود بخود سنبھل جائے گی۔
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا علم اتنا ہی ہوتا ہے جتنا جانور کے بچے کو ہوتا ہے۔ بھوک لگتی ہے تو دودھ پی لیا، پھر سو گئے، اس طرح رفتہ رفتہ بڑے ہوتے گئے، لیکن انسان کا بچہ اپنی ماں کی گود سے اور اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔ تربیت سکول داخلے سے بہت پہلے شروع ہو چکی ہوتی ہے جس طرح بچہ بغیر سیکھائے زبان سیکھ چکا ہوتا ہے اس طرح وہ بہت کچھ اور بھی اپنے اردگرد سے سیکھ رہا ہوتا ہے۔
مسلمان بچہ ہڈی کو شیرِ مادر کی طرح چوستا ہے جبکہ ایک ہندو کے بچے کو گائے کے گوشت کے نام سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ ہمارے گھروں میں بچے چیونٹی مارنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں لیکن ٹھگوں کا بچہ بڑے آسانی سے انسانی جان لے لیتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ وہ تربیت ہے جو بچہ پیدائش کے ساتھ ساتھ ماحول اور ماں کی گود سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا ضمیر مرتب ہو رہا ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نکال کر سینا کی وادیوں، آزاد فضاؤں میں لے آئے لیکن بنی اسرائیل حضرت موسیٰؑ کو ستاتے کہ تو ہمیں یہاں بیاباں میں مرنے کے لئے لے آیا ہے، تو حضرت موسیٰؑ سے کہا گیا کہ ان کو مرنے دیں اور آنے والی نسل کی تربیت کریں۔
بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے یہ بات بےحد ضروری ہے کہ بغیر رنگ و نسل اور طبقاتی تفریق کے بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت کی جائے، جن گھرانوں میں اس نقطہ نگاہ سے بچوں کی تربیت کا خیال رکھا جاتا ہے، وہاں کے بچے شروع ہی سے خود اعتمادی، ذمہ داری، ہمدردی، محبت، ایثار، جرات، اور وسعتِ قلب کی خصوصیت لئے ہوئے پروان چڑھتے ہیں۔ اور جن گھروں میں تربیت اچھی نہیں ہوتی، وہاں کے بچے زندگی میں کچھ بھی مفید کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
اقبالؒ کو اپنے بچوں سے بڑی اُمیدیں تھیں۔ ان بچوں کو وہ شاہین بچے کہہ کر پکارتے تھے۔ 75 برس ہونے کو آئے ہم نے اپنی آنے والی نسل کی تربیت کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔