Apne Bhi Khafa Mujhse Begane Bhi Nakhush
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی نا خوش
ایک دو روز پہلے خان صاحب کو گولی لگنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور ایک اور معصوم شخص اپنی جان کی بازی ہار گیا لیکن خدا کا شکر ہے کہ حان صاحب کی جان محفوظ رہی اور خدا نے اس ملک کو تباہی سے بچا لیا۔ اس کے باوجود خان صاحب نے ملک گیر احتجاج یا ہنگاموں کا اعلان کر دیا ہے۔ جب بے نظیر قتل کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا اور ملک گیر ہنگامے شروع ہو گئے، تو زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا یعنی پاکستان زندہ باد اور ہنگامے اسی وقت ختم ہو گئے۔ یہ ملک قائم رہے گا تو ہی اس پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے حکمرانی کر سکیی گئے۔
خان صاحب نے جو کچھ اپنی لمبی جوڑی تقریر میں کہا اس سے پہلے اسد عمر بھی یہی کہہ چکے ہیی۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے بقول ان کو ان کو واقع کے وقوع ہونے سے پہلے واقع کا پتہ تھا۔ اس واقعہ کا الزام جن تین افراد پر لگایا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اتنا بے وقوف نہیں لگتا کہ اگر خان صاحب کو ختم کرنا چا ہتے تو وہ بچ جائیں۔
میری بیٹی فاطمہ پپ جی گیم کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے بتا رہی تھی کہ جو گنز اس گیم میں استعمال ہوتی ہیں وہ ہی حقیقی زندگی میں بھی قابل استعمال ہیں۔ میرے بیٹے جبران نے مجھے مزید بتایا کہ sniper rifle میں دور بین لگی ہوتی جو بہت دور سے اپنے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر ہم کسی بلڈنگ سے بھی کسی کو مارنا چاہیں تو نشانہ بالکل اپنی جگہ پر لگتا ہے۔
ہماری ایجنسیاں جو دنیا کی نظروں میں کھٹکتی ہیں وہ اتنی کمزور planning نہیں کر سکتیں کہ وہ اگر کسی کو مارنا چاہیں تو وہ بچ جائے۔ یہ سب گفتگو میرا بیٹا اور بیٹی کر رہے تھے۔ اگر یہ بات نئی نسل سوچ سکتی ہے تو سوشل میڈیا پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں میں اتنی عقل بالکل نہیں ہے۔
کسی تالاب میں محصور پانی کو آپ جس طرح چاہیں استعمال میں میں لا سکتے ہیں، لیکن بپھرے ہوئے سیلاب کو ساحلوں میں محبوس کرنا تا کہ وہ تباہی کا باعث بنے کی بجائے "وجہ شادابی بن جائے" کچھ آسان کام نہیں ہوتا۔
ہمارے نوجوان جن میں بے پناہ قوت موجود ہے۔ لیکن ان میں اکثر اس سیلاب کی مانند ہے جو ساحلوں میں محبوس ہونے کی بجائے ' تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
اقبال کو اپنے نوجوانوں سے بڑی اُ میدیں تھیں، کیونکہ آنے والی نسل پر ہمارے مستقبل کا دارو مدار ہے۔۔ عمران خان اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ نوجوان ان کی بات سنتے ہیں۔ عوام ہمیشہ سے اپنے لیڈروں کو سنتے آئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اگر قائدِ اعظم جیسا لیڈر ہو تو اس زمانے میں لاکھوں کے مجموعہ میں pin drop silence تھا اور قائدِ اعظم انگریزی میں خطاب کر رہے تھے۔ مجمع میں موجود کسی شخص سے بیرونی ملک کے کسی رپوٹر نے سوال کیا کہ آپ کو کچھ سمجھ آرہی ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ سمجھ تو نہیں آرہی لیکن مجھے اس بات کا یقین ہیں کہ قائدِ اعظم جو کہہ رہے ہیں اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو لیڈ کرنے والا محمد علی جناح تھا۔
آج کل کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور والدین نے بچوں کی تربیت خود کرنے کی بجائے موبائل ان کے ہاتھ میں تھما دئیے ہیں اور بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو جو جی میں آئے دیکھتا ہے اور پھر وہی کچھ سیکھتا ہے۔ ہر بچہ میں کوئی نا کوئی صلاحیت ہوتی ہے، اب تربیت کرنے والوں پر منحصر ہے کہ اس صلاحیت کو تعمیری کام کے لئے استعمال کرتے ہیں یا تخریبی مقاصد کے لئے!
ارسطو نے کہا تھا کہ بچے کے پہلے پانچ سال مجھے دے دو، جس طرح شحصت میں جاہو میں بچے کو ڈھال دونگا۔ خان صاحب پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو نوجوان ان کو سنتے ہیں ان کو کم از کم اچھا انسان ہی بنا دیتے، لیکن خان صاحب نے جیسی ان کی اپنی شخصیت بن چکی ہے بالکل ویسی ہی شخصیت میں وہ نوجوانوں کو ڈھال رہے ہیں!
نوجوان کوئی بھی بات تک سننے کو تیار نہیں ہوتے، ہم سنتِ ابراہیمیؑ کے ماننے والے ہیں جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ غلط اور درست کا معیار وحی خداوندی ہے۔ حضرت ابرہیمؑ نے اپنے والد کے غلط عمل کی تائید نہیں کی، لیکن خان صاحب کے نوجوان خان صاحب کے ہر غلط اور ٹھیک عمل پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں۔
خان صاحب کا پسندیدہ دورِ خلافت، خلافتِ راشدہ میں ایک دفعہ مجمع میں حضرت عمر نے پوچھا کہ اگر عمر کج رو ہو جائے تو آپ کیا کریں گئے تو لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی گردن اڑا دیں گئے، حضرت عمر نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ لوگوں کو غلط اور ٹھیک کا شعور ہے!
یہی حضرت عمر تھے جب یہودیوں کے ہاں تورات کا درس ہوتا تو آپ درس میں شریک ہوتے، لیکن تورات عبرانی زبان میں تھی۔ اس کے لئے آپ نے عبرانی سیکھی اور اس میں اس حد تک مشق حاصل کرلی کہ آپ براہِ راست تورات کا مطالعہ کرنے لگ گئے۔ یہی وہ جزبہ تحقیق تھا جس کی بناء پر وہ اسلام کی دعوت پر غور و فکر کر کے اسلام لا کر عمر ابنِ خطاب سے فاروقِ اعظم بن کر آسمانِ انسانیت پر چمکے اور دوسری طرف ابو جہل جہالت کی زندگی جیا اور جہالت کہ موت مرگیا۔
حضورﷺ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے بڑی مشقتیں برداشت کیں۔ جب کفار آپ ﷺ کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوئے تو آپ ﷺ نے سب کو جمع کیا اور کہا کہ میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا صرف میرے دو لفظ سن لیں وہ یہ تھے:
ثُمٓ تتفکرُ "سوچا کرو"
کاش میرے نوجوان بھی حضور ﷺ کی اس بات پر عمل کرلیں۔
میں تو وہی بات کہتی رہونگی جس کو میں حق سمجھتی ہوں۔
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکی کند