Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Khan/
  4. Online Shopping (2)

Online Shopping (2)

آن لائن شاپنگ (2)

شدید خواہش تھی کہ بھائی اس پارسل کو نہر میں پھینکنے دے لیکن بھائی نے میری بات نہ مانی۔ دونوں سوٹوں کا انتہا درجے کا فضول سٹف تھا۔ یہ وہ سٹف تھا جو بازار میں ریڑھی والا ایک مخصوص ٹیپ ریکارڈنگ کے ساتھ بیچ رہا ہوتا ہے"سو کا ایک ڈیڑھ سو کے تین۔ پہلے آئیں پہلے پائیں " فورا فیس بک والی سے رابطہ کرنا چاہا تو اس کی پروفائل پر فیس بک یوزر لکھا تھا یعنی میں بلاک ہوچکی تھی۔

امی نے ان کپڑوں کو دیکھنے کے بعد وہی سلوک کیا جس کی توقع تھی۔ صلواتیں سنانے کے بعد امی کچن میں چلی گئیں۔ میں نے دل گرفتگی کے ساتھ جوتی پارسل سے نکالی، یہ ہو بہو تصویر جیسی تھی۔ مجھےکچھ ڈھارس ہوئی۔ فوراََ امی کو پکارا"۔ امی ادھر آئیں جوتی تو دیکھیں کتنی حسین ہے" میری بدقسمتی نِما نِما ہاسا کرتی ہوئی میرے سامنے آکر بیٹھ چکی تھی۔ مجھے مزید بے عزت جو کرانا تھا۔

امی بڑبڑاتی ہوئی کچن سے نکلیں۔ کپڑوں کو ایک طرف رکھا اور بھتیجی کو جوتی پہنائی کہ چلو کچھ تو غم ہلکا کروں۔ امی نے تنقیدی نظروں سے دیکھا" یہ جوتی کچھ عجیب کیوں لگ رہی ہے؟"میں نے بوکھلا کر بچی کے دونوں پاؤں دیکھے۔ ایک پاوں چھوٹا اور ایک بڑا نکلا تھا۔ مایوسی سے سر جھکا لیا۔ بھائی نے گلا کھنکھارا"۔ یہ عجیب اس لیے بھی لگ رہی ہے کیونکہ ایک ہی پاؤں کا جوتا دونوں میں ڈالا ہوا ہے"۔

میں نے اسے گھورا اور فٹ سے نفی میں سر ہلایا"۔ نہیں، بس ایک چھوٹا اور ایک بڑا ہے"۔ امی نے بچی کی جوتی اتار لی اور بغور دیکھنے لگیں۔ بھائی کی بات ٹھیک نکلی۔ یہ دونوں واقعی ایک پاؤں کے جوتے ہی تھے۔ اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا اس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ بے عزتی لکھی ہوئی بھی اتنی ہی تکلیف دیتی ہے جتنی آپ حقیقت میں کرواتے ہیں۔ میں بہرحال عہد کر چکی تھی کہ اب کراچی سے خریداری نہیں کرنی۔

میں نہ جانتی تھی کہ میرے نصیب میں چند اور دھکے کھانا باقی تھے۔ فیس بک پر ایک پیج نظر سے گزرا۔ اس ویڈیو پر کسی دوست نے مینشن کیا ہوا تھا۔ میں نے بے دلی سے دیکھنا شروع کی، یہ فیصل آباد میں کپڑوں کی خریدوفروخت کا پیج تھا اور اچھی خاصی فین فالونگ موجود تھی۔ دھماکہ سیل، ڈسکرپشن پر بس اتنا ہی لکھا تھا۔

میری بدقسمتی نے انگوٹھے سے لٹک کر سکرین سکرول کرنے سے روکا۔ اتنے میں اونر نے ایک لال رنگ کا حسین سا سوٹ کھولا۔ بے شک یہ لال سوٹ میرے نصیب پر سیاہی پھیلانے کے لیے بنا تھا۔ اسی واسطے مجھے پسند آچکا تھا۔ میں نے اپنے عہد کو اس استثنٰی کے ساتھ توڑ دیا کہ وعدہ توکراچی خریداری نہ کرنے کا تھا۔ فیصل آباد کو چیک کرنے میں کیا حرج ہے؟

میری بدقسمتی مسکرائی"۔ بالکل، میں تو یہی چاہتی ہوں کہ چیک کرو تاکہ منہ کی کھاؤ"اونر کے ساتھ بات یہ طے کی کہ میں اس کو کھول کر دیکھوں گی تب ہی پیسے دوں گی۔ اس نے منی بیک گارنٹی کے ساتھ پارسل بھیج دیا۔ اس بارپھر سے ایکسائیٹڈ تھی۔ گھر میں بتایا تو امی نے مجھے جن نظروں سے دیکھا ان کا مفہوم کچھ یوں بن رہا تھا کہ " میں تمہاری بے عزتی کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں لہٰذا سوٹ آنے دو ایک بار "۔

دو دن بعد سوٹ آچکا تھا۔ میں نےکھول کر دیکھا۔ یہ تو واقعی بہترین تھا۔ جھومتی ہوی اندر بھاگی۔ بہنوں، کزنوں وغیرہ کو دکھا کر تقریب رونمائی بھی شروع کردی۔ جشن منانے میں شاید کچھ جلدی کر بیٹھی۔ فخر سے اٹھلاتی ہوئی جا کر امی کے سامنے رکھ دیا۔ امی نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا۔ نہ کوئی خرابی تھی نہ نظر آئی۔ مامی ٹیلر کے پاس جا رہی تھیں میں نے روکا۔ ٹھہریں میرے کپڑے بھی لیتی جائیں میں شرنک کر کے دیتی ہوں۔

جا کر ٹب میں پانی بھرنے لگی۔ ٹب کے ساتھ چوکی پر بیٹھی میری سیاہ قسمت نے دلچسپی سے مجھے دیکھا۔ اس پل کا اسے مجھ سے زیادہ انتظار تھا۔ میں نے کپڑے اٹھاۓ اور ٹب میں ڈالے یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، اس کے بعد راوی نے قلم رکھ دیا اور طبلہ بجانا شروع کردیا۔ تار پر ڈالنے کو کپڑے نکالنا چاہے اِدھر ہاتھ میں آۓ، اُدھر ہڑبڑا کر کپڑا میں نے چھوڑ دیا۔ کپڑے سے اتنا رنگ اترا تھا کہ بدرنگ ہوا پڑا تھا۔ سارا پانی لہو لہو ہو چکا تھا۔

میں نے تھوک نگل کر امی کو دیکھا۔ کاش یہ ٹب زمین میں دفن ہوجاۓ "۔ دل نے شدید خواہش کی۔ اس کپڑے کو ٹب سے باہر کیسے نکالوں؟ کہ امی کی نظر نہ پڑے۔ میری شامت سمجھیں کہ چھوٹا کزن کھیلتا ہوا بھاگا آیا اور اسی ٹب میں آن گرا۔ ٹب الٹ گیا۔ بچہ لہولہان ہو چکا تھا۔ مامی نے دل تھام لیا " ہاے میرا بچہ" سب بچے کی طرف بھاگے۔ اس سے پہلے کہ مامی پچھاڑ کھا کر بے ہوش ہوجاتیں۔ بچہ بول پڑا" خون نہیں ہے، یہ آپی کے کپڑوں کا رنگ اترا ہے"۔

امی نے فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھا اور میں مرے مرے قدموں سے اندر چل پڑی۔ اب امی نے پورا ہفتہ میری ہر ایکٹویٹی کے بیک گراونڈ پر چلنا تھا۔ فیس بک پر انہوں نے مجھے بلاک نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر تسلی ہوئی۔ میں نے خاصے جارحانہ انداز میں ان سے کپڑوں کی شکایت کی۔ پہلے پہل تو انہوں نے بہانے بناے۔ لیکن مجھے بھی اپنی خواری کا بہت غم تھا سو ان کو دھمکیاں دے ڈالیں کہ میں اخبار میں تم لوگوں کے خلاف لکھوں گی تو کچھ نرم پڑے اور کہا کہ اچھا وہ سوٹ بھیج دو، ہم اس کے بدلے دوسرا بھجوا دیتےہیں۔

یقیناً اس کو رنگ دے کر دوبارہ بیچنے کا ارادہ تھا ان کا۔ تین سو ڈلیوری چارجز بھر کر میں نے یہ تازہ تازہ بیوہ ہوا سوٹ ان کو واپس بھیج دیا۔ جس کا سہاگ ٹب میں اجڑ چکا تھا اور انہوں نے اس کے بدلے ایک اور پسند کیا ہوا سوٹ بھیج دیا۔ گوکہ اس کا رنگ نہیں اترا لیکن بازار میں اسی ڈیزاین کا سوٹ آدھی قیمت پر ملتا دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا۔ اس دن فیس بک پر اس پیج کو بھی ان لائک کردیا اور فیصل آباد سے یہ میری آخری خریداری ثابت ہوئی۔

ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میری دوبارہ ہمت نہ پڑی لیکن قسمت کو یہ منظور کہاں تھا بھلا اسے مجھے دوبارہ زلیل کرانا تھا۔ بقول نورجہاں لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں یہاں سے۔ دوستوں کی محفل میں ایک برانڈ کا ذکر ہو رہا تھا کہ یہاں مردانہ کپڑے بڑے بہترین سٹف میں مل رہے ہیں۔ کسی جذباتی نے لنک بھی شئیر کردیا۔ لنک کو سرسری سا اوپن کرکے دیکھا۔ یہ اسلام آباد کا پیج تھا۔

گوکہ ارادہ تو یہی تھا کہ خریداری نہیں کرنی لیکن دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ مردانہ شرٹس کی ڈیلز بنی ہوی تھیں۔ ڈیل لینے کی صورت میں زیادہ فائدہ بتایا جا رہا تھا اور ساتھ ہی کلیئرنس سیل کا لولی پاپ بھی موجود تھا۔ پسند تو کافی ساری آئیں لیکن دو شرٹس کا فوٹو شوٹ ہی ایسا ہوا پڑا تھا کہ ان سے نظر نہ ہٹی۔ دونوں طرف سے خوبصورت گلدان پڑے تھے رنگین سا بیک گراونڈ اور درمیان میں سٹائل کے ساتھ فولڈ ہوی شرٹس۔

میں فدا ہوچکی تھی اور خریداری کے لیے تیار تھی۔ اب کی بار دوستوں کی تعریف کی صورت ثبوت میرے پاس تھا تو سہی لیکن پھر بھی کافی احتیاط کے ساتھ ان سے بات کی۔ دل نے تسلی دی۔ اسلام آباد سلجھے ہوے مہذب لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں دو نمبری نہیں ہوگی۔ بدقسمتی نے موبائل کی اوٹ سے جھانکا اور مسکرائی"۔ پیسے بھیج تماشہ دیکھ" (جاری ہے)۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari