Zindagi Tamasha
زندگی تماشہ
پاکستان میں حالیہ معیاری فلموں کا تذکرہ ہو تو سرمد کھوسٹ صاحب کا نام سر فہرست آتا ہے۔ نا قابل قبول سماجی رویوں کو کس گہرائی میں کھودتے ہیں اور ان کو خو بخو اپنے دکھ اور دردوں سمیت فلما کر ہم سب کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات آنکھوں دیکھے ہیں بس دو بیان کروں گا۔
ایک صاحب ہیں انکی بیوی اور ماں کی نہیں بنتی تھی۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے ہار ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ ایک دن لڑائی ہوئی بہو نے تیزاب پی لیا اور وفات پا گئی۔ اس واقعے میں اس غریب کا کوئی قصور نہیں تھا۔ حد درجے کا شریف آدمی۔ نہ ماں اس کے کہے میں تھی نہ بیوی۔ حالات ایسے نہیں تھے کہ بیوی کو الگ گھر میں شفٹ کر سکتا۔ بیوی کی وفات کے بعد اسے بیوی کا قاتل کہا جانے لگا۔
لوگ نفرت کرنے لگے اور اس سے بول چال بھی ختم کر دیا۔ مزدوری کرتا تھا۔ لوگوں نے مزدوری کرانا ختم کر دی۔ وہ کراچی چلا گیا اور کبھی واپس نہ آیا۔ نجانے زندہ بھی ہے یا نہیں۔ خدا کی بارگاہ میں تو وہ گناہ گار ہے یا نہیں مگر زمانے میں اس سے بڑا ظالم اور گناہ گار کوئی نہیں اور کوئی بھی اسے معاف کرنے کو اس سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر میرا دل پھٹنے لگتا تھا۔
دوسرے صاحب ہیں، خواتین کے پردے کے سخت حامی تھے۔ خدا کو منظور ایسا تھا کہ شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوگئی جو چہرے کو شرعی پردہ میں شامل نہیں کرتی تھی۔ اور چہرہ ڈھانپنے سے انکار کرتی تھیں۔ اختلاف بڑھا تو بات طلاق تک چلی گئی۔ وہ لڑکی طلاق اور اپنی بیٹی ساتھ لیکر چلی گئی۔ مشہور ہوگیا کہ وہ اسے قتل کرنے والا تھا۔ اس نے اسکے چہرے پر تیزاب پھینکنے کی کوشش کی وغیرہ، حالانکہ یہ سب بکواس تھی۔ جدا ہونا ان دونوں کا باہمی رضا مندی سے لیا گیا فیصلہ تھا۔ کہ دونوں میاں بیوی کی سوچ میں مشرق و مغرب کا فرق تھا۔
وہ بعد میں جلد ہی تبلیغی جماعت سے جڑ گئے۔ اس بات کو پندرہ سولہ سال ہونے کو ہیں۔ آج تک ان صاحب کے بارے میں انتہائی گھٹیا باتیں لوگ کرتے ہیں، لکھتے ہوئے الفاظ ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ اچھے بھلے بندے کہتے ہیں جو بیوی کو نہیں سمجھا سکا تھا وہ اور لوگوں کو کیا تبلیغ کرے گا۔ مقامی سہ روز میں عموماً گاؤں کے نوجوان لڑکے وغیرہ جاتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ وہ بھی جماعت کے ساتھ جا رہا ہے تو اپنے بچوں کو منع کرتے کہ اس کے ساتھ نہ جانا۔ ان کی دوبارہ شادی نہیں ہو سکی۔ اگلی نسل کو بھی ان کا نا کردہ ظلم و جبر بتایا جاتا ہے اور ان سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ان دونوں کرداروں کے ساتھ معاشرے نے وہی سلوک کیا جو زندگی تماشا کے کلیدی کردار "محمد راحت خواجہ" کے ساتھ ہوا۔ فلم یوٹیوب پر Khosat Films یوٹیوب چینل پر تین دن پہلے اپ لوڈ کی گئی۔ نجانے مذہبی شدت پسندوں نے اسے سینما میں ریلیز کیوں نہیں ہونے دیا۔ فلم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو۔
اب تک نہیں دیکھی تو ضرور دیکھئے اور سوچئیے کہ ہم بھی تو کہیں جانے انجانے میں لوگوں کے خدا تو نہیں بن جاتے؟ ان کی غلطی کو خدا کی ذات تو ضرور معاف کر دیتی ہے مگر ہم ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اور خود اپنی زندگیوں میں کیسے خوش رہ لیتے ہیں؟