Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Zarb Na Marna

Zarb Na Marna

ضرب نہ مارنا

میں اس وقت پاکستان میں ہی تھا۔ ایک اوور سیز پاکستانی سے پوچھا بھائی باہر کے ملک رہتے ہوئے سب سے مشکل کام کونسا ہے؟ اپنے دماغ سے غیر ملکی کرنسی کو پاکستانی روپے سے "ضرب نہ مارنا" سب سے مشکل ترین ہے۔ لوگ امریکہ جرمنی، فرانس، اٹلی میں رہ کر نہ صرف اچھی ملازمت بلکہ کاروبار کرنے والے بھی فوراََ کسی شے کو پاکستانی روپے سے ضرب مارتے ہیں اور سوچتے ہیں لینی چاہئیے کہ نہیں۔ یہاں گلف میں تو اکثریتی رویہ یہی ہے۔ استطاعت ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کہ اتنے پاکستانی روپے بن رہے ہیں۔ حالانکہ اس چیز کی ضرورت آج ہوتی ہے نجانے کب پاکستان جانا ہو اور کب وہاں سے کچھ لینا ہو۔

ایسی سوچ ڈیویلپ ہونے کی کچھ وجوہات جو مجھے سمجھ آئی ہیں۔ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں ہماری اسکل لیول کے لوکل شہری کی ایورج ماہانہ آمدن سے واقفیت نہ ہونا۔ اپنی اسکل کا کوئی لیول نہ ہونا نہ اسے آپ ڈیٹ کرنے پر محنت کرنا کہ اسے اچھے داموں بیچا جا سکے۔ ان لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا رہنا جو کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں جو کچھ نیا کرنے کے خیالی پلاؤ تو بڑے پکاتے ہیں مگر کرتے نہیں۔

ایک مثال سے سمجھیے یہاں کے ایک لوکل عمانی سپیشل ایجوکیشن ٹیچر یا کسی انٹرنیشنل ٹیچر کی انٹرنیشنل برٹش یا امریکن سکول یا کسی اچھے ری ہیبلی ٹیشن سنٹر میں جاب ہو تو اسکی ماہانہ سیلری ایک سے دو ہزار ریال کے درمیان فال کرتی ہے۔ ایورج پندرہ سو ریال لگا لیں۔ اب ہم صرف لوکل کی بات کریں گے۔ اس کا سورس آف انکم صرف انکی تنخواہ نہیں ہے۔ اسکے پاس دو تین طرف سے پیسے آرہے ہیں۔ اسکا کوئی بزنس سیٹ آپ ہے جسے کوئی خارجی یا عمانی چلا رہا ہے۔ اسکی کوئی پراپرٹی ہے جسکا رینٹ آ رہا ہے۔ اسکی کوئی بس ہے ڈمپر ہے ٹرالر ہے کوئی وہیکل ہے جو اسے ہر ماہ پیسے دے رہی ہے۔ زرعی زمین ہے کوئی انویسٹمنٹ ہے۔ وہ ڈرائیونگ کی تعلیم دینے والی گاڑی چلاتا ہے۔ وہ ٹیکسی چلاتا ہے۔ اسکی حرما کا کوئی بیوٹی پارلر ہے۔ وہ بنک میں ائیرپورٹ یا کسی اور جگہ جاب کرتی ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسکا کوئی ایک سورس آف انکم ہو۔

سیلری جتنے ہی لگ بھگ پیسے ان کو کہیں اور سے آ رہے ہیں۔ ایسا سب کے ساتھ ہر گز نہیں ہے۔ جنہوں نے اس پر ورکنگ کی ہے انکے ساتھ ایسا ہے۔ اب یہاں ایک اور ایشو ہے۔ بہت زیادہ لوگ بنک سے لون لیتے ہیں گھر بنانے شادی کرنے اور بزنس کرنے کے لیے۔ آمدنی کا ایک بڑا حصہ لون کی پیمنٹ میں جا رہا ہوتا۔ میرے ایک عمانی دوست کے دو تین لون ہیں۔ آٹھ سو ساٹھ عمانی ریال ہر ماہ اسے اگلے سات سال تک ادا کرنا ہے اور اسکی تنخواہ سات سو ریال ہے۔ جبکہ اسکی مجموعی آمدن دو ہزار ریال کے آس پاس ہے۔

لون لے کر بروقت شادی کی، بہت اچھا گھر بنایا، گھر میں ضرورت کی ہر چیز خریدی اور اپنی آمدن بڑھانے پر ورکنگ بھی کی۔ اسکا کہنا تھا جہاں دس سال بعد ہونا تھا وہاں میں آج ہوں۔ یعنی اپنی کمائی سے گھر بنانا، بزنس کرنا، گاڑی لینا، شادی کرانا وغیرہ۔

اب یہاں سب لوگ لون بھی نہیں لیتے۔ جو ہے اس میں گزارہ کرتے ہیں یا لون کے بغیر بھی لون والوں سے اچھے حالات میں آجاتے ہیں۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ اپنی اپنی محنت ہے اور اپنے اپنے نتائج ہیں۔

بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا پہنچی۔ آپ جہاں بھی ہیں اپنی قابلیت اور وژن کو خود ہی چیک کر لیں کہ آپ جہاں رہ رہے وہاں کے کسی مقامی جیسے "ایورج" لائف اسٹائل اور آمدن تک رسائی میں رکاوٹ کیا چیز ہے؟ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں کہ انکو انکی حکومت بڑی سہولیات دیتی ہے۔ تو یہ بھی ایک بہانہ ہی ہے کچھ نہ کرنے کا۔ ان سہولیات کو نکال کر بھی ہم بہت پیچھے اسٹینڈ کر رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے بڑا سوچنے، زندگی کو روٹین سے ہٹ کر دیکھنے، اسکی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو جینے کی صلاحیت ہی ہم سے چھین لی گئی ہوئی ہے۔ اسٹرگل کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنے والے اور اپنی لائف میں کچھ نہ کر سکنے والے ہمارے آس پاس موجود لوگ کسی اور کی اسٹرگل پر بڑی بری طرح اثر انداز ہونے اور اسکا مورال ڈاؤن کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ انکی فرسٹریشن ہوتی ہے یا وہ جس پنجرے سے خود رہائی نہیں حاصل کر پاتے کسی اور پنچھی کو بھی آزاد ہواؤں میں سانس لیتے دیکھنا ان کو تکلیف دیتا ہے۔ یا وہ اسے کسی مشکل میں جاتے نہیں دیکھنا چاہتے جس کا وہ خود شکار ہو چکے ہیں۔ سو چیزیں ہیں۔

دن گزرتے ہیں مہینے اور پھر سال۔ ریالوں ڈالروں یورو پونڈ کو پاکستانی کرنسی سے ضربیں مارتے ہوئے ہم ملک سے باہر آتے ہیں اور ضربیں مارتے ہی ہم واپس چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ غیر ملکی پاسپورٹ اور شہرت کے بعد ہی یہ ضرب مارنے کی اور اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں اپنی خواہشوں اور جائز خوشیوں کو دبانے اور ختم کردینے کی نفسیات اکثریت کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali