Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Wheel Chair

Wheel Chair

وہیل چیئر

گزشتہ چار پانچ سال سے میں ایسے سپیشل بچوں کو وہیل چیئر کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہوں۔ جو اس وہیل چیئر کے ساتھ اپنے گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے لیے نکل سکتے ہیں۔ یا ایسے نوجوان جو اس وہیل چیئر سے کسی جگہ روزگار کی تلاش میں یا ہنر سیکھنے جا سکتے ہیں۔ میرا سب سے پہلا سوال ہوتا ہے کہ آپ کے گھر میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں کتنی ہیں؟ دیکھیں اگر تو آپکے بیٹے یا بیٹی یا بہن بھائی کی وہیل چیئر کا داخلہ آپ کے اپنے گھر میں ہی ممکن نہیں ہے تو آپ سے بڑھ کر اس سپیشل بچے کا خیال کسے ہوگا؟ کوشش کریں جتنی جلدی ممکن ہو سیڑھیاں ختم کرکے ریمپ بنائیں۔

اگر تو ان کو بات سمجھ آتی ہے پھر ان سے معلوم کرتا ہوں کہ آپ کے مالی حالات کیسے ہیں؟ پاکستان میں یہ ایک گندہ رواج بن گیا ہوا ہے کہ وہیل چیئر فری میں ملی ہوئی ہی لینی ہے۔ اور خیر سے مل بھی جاتی ہیں تو اسے اپنی جیب سے خریدنے کا کوئی ٹرینڈ ہی نہیں ہے۔ کوئی امیر ہے یا غریب اس کی کوشش یہی ہوتی کہ فری میں وہیل چیئر مل جائے۔ اور فری میں جو پیشنٹ ویل چیئرز ملتی ہیں وہ ایک دو ماہ بعد ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ اور گھر کے چھت پر یا کباڑ خانے میں چند ماہ گزارنے کے بعد لوہا لیلن خریدنے والوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔ خیر میں پہلے تو رابطہ کرنے والوں کو اسی بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ آپ گھر کی کوئی اضافی چیز یا بچے کی ماں کے پاس سونے کی ایک انگوٹھی بھی ہے تو وہ بیچ کر وہیل چیئر خریدیں۔

دوسری صورت میں کسی امیر رشتہ دار سے ریکوسٹ کریں۔ آپ نہیں کر سکتے تو مجھے بتائیں میرا ان سے رابطہ کرائیں۔ ایسا بھی نہیں تو وہیل چیئر کی قیمت خرید میں آدھا حصہ آپ ڈالیں۔ یا پانچ دس ہزار ہی ڈالیں۔ مگر اسکی قدر کرنے کے لیے کچھ پیسوں کا بندوست آپ ضرور کریں۔ ان سب باتوں میں سے کسی ایک بات پر والدین متفق ہو ہی جاتے ہیں۔ اور میں ان کو بتا دیتا ہوں کہ آپ کو اس قسم کی وہیل چیئر فلاں جگہ سے اتنے کی مل جائے گی۔ آپ خود آرڈر کریں۔ اور اسکی ریپئر کے ذمہ دار بھی آپ خود ہی ہونگے۔ پہلے پہل لوگوں کو فری وہیل چیئر دیتے تھے اور وہ دس دن بعد کال کرتے تھے اگلا ایک ٹائر ٹوٹ گیا ہے وہ تو آکر ٹھیک کروا دیں۔ سو فری والی پارٹی کو اب کم ہی ہاتھ پکڑاتا ہوں۔ کچھ دوست احباب اپنے گرد و نواح میں سپیشل بچوں کو دیکھ کر ان کے لیے وہیل چیئر کی درخواست کرتے ہیں۔

اور کچھ اسکولوں اور مدارس سے اساتذہ اور منتظمین کی طرف سے بھی درخواستیں آتی ہیں۔ کہ زیر تعلیم بچے کو وہیل چیئر کی ضرورت ہے۔ گائیڈ بھی کریں اور کچھ تعاون ممکن ہو تو وہ بھی کریں۔ ان کو بھی مدد سے پہلے ایک لیکچر ہی سننے کو ملتا ہے کہ کچھ تو آپ بھی کریں۔ جب سے ایسا کرنا شروع کیا ہے الحمدللہ سکون میں ہوں۔ جب فری دیا کرتے تھے تو لینے والا دو اور بتاتا تھا کہ فلاں بندے سے ملی ہے تم بھی رابطہ کرو۔ اور دن رات ایسی ہی فون کالز اور پیغامات کے جواب دینے میں گزرتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود بھی کچھ ایسے بچے بچ جاتے ہیں جن کو وہیل چیئر خرید کر ڈیلیوری چارجز خود دے کر وہیل چیئر گھر پہنچانے کا بندوست کرنا پڑتا ہے۔ ان سے بھی یہ وعدہ لیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ گھر کی قید سے باہر جائے گا اور اگلے چھ ماہ تک ہر ماہ ان سے رابط کرکے بچے کی تعلیم و بحالی کا احوال میں خود پوچھتا ہوں۔ پچھلے چھ ماہ سے وہیل چیئر کے لیے فنڈز کی اپیل کی الحمدللہ کوئی ضرورت نہیں پڑی۔

کچھ ذاتی دوست خود ہی تعاون کرتے رہتے ہیں اور جو دوست کسی سپیشل پرسن کا مجھے بتاتا ہے میں اسے ہی پٹو ڈال لیتا ہوں کہ پیسے بھی اپنے سرکل سے خود ارینج کرو۔ ابھی وہیل چیئر فراہمی پراجیکٹ کی ویٹنگ لسٹ میں سات عدد ایسے غریب و نادار بچے ہیں جن کو وہیل چیئر کی ضرورت ہے۔ اور ان کے لیے انکے سرکل یا رپورٹنگ پرسن کو انوالو کرکے کوئی بندوست نہیں ہو پا رہا۔ آپ میں ان کے کوئی احسان والا معاملہ کرنا چاہے تو میرے ساتھ انباکس میں رابطہ کرکے کر سکتا ہے۔ ایک وہیل چیئر کی قیمت 25 ہزار روپے ہے۔ ایک دو بچوں کو سی پی چئیر دینی ہے وہ 50 سے 60 ہزار روپے کی ایک آئے گی۔ یہ تصویر میں سی پی چئیر ہے۔ گزشتہ دو ہفتے بھائی کی شادی میں مصروف تھا۔ پھر الیکشن ٹریننگ اور الیکشن ڈیوٹی چار پانچ دن لے گئی۔ انباکس میں آئے ہوئے دیگر پیغامات کے جوابات بھی کل سے دینا شروع کیے ہوئے ہیں۔ چند دن لگیں گے سب کو رپلائی ملنے میں۔ کسی نے ذیادہ عرصہ پہلے کا کوئی پیغام انباکس کیا ہوا ہے تو وہ یہاں کمنٹس میں بتائے میں ان شاءاللہ رپلائی کرتا ہوں۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar