Wheel Chairs
وہیل چیئرز
سال 2022 جنوری سے ایک پریکٹس شروع کی تھی کہ میں نے اپنے گردو نواح میں ہر ماہ ایک سپیشل بچے کو تلاش کرنا ہے۔ ایسا بچہ جس کے گھر والے غریب ہیں اور اسکی معذوری کی تشخیص یا علاج و بحالی وغیرہ کی استطاعت نہیں رکھتے۔ الحمدللہ گزرے بارہ مہینوں میں 17 بچوں کے ساتھ یہ پریکٹس اپنائی۔ اور سال کے اختتام پر میرے پاس الحمدللہ بے شمار خوشیاں اور اطمینان ہے۔
کہ میری زندگی کا یہ سال سب سے خوبصورت ترین رہا۔ میرا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ایک بچہ تلاش کیا، اسے جس ڈاکٹر کے پاس لیجانا مطلوب ہوتا۔ اس فیلڈ کے پروفیسر ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیتا اور ٹیکسی کروا کر اس بچے اور اسکے والدین کو لاہور لے جاتا۔ بنیادی ٹیسٹنگ اور تشخیص کے بعد والدین کو بچے کا فیوچر بتا دیا جاتا۔ اسکا کوئی علاج ممکن ہوتا تو وہ کرا دیا جاتا۔
مصنوعی اعضا کی ضرورت ہوتی وہ لگوائے اور جسے وہیل چئیر کی ضرورت ہوتی، اسے ایک معیاری وہیل چیئر دے دیتا۔ جو بچہ سکول جا سکتا ہوتا، اسکی سکولنگ کا مناسب بندوست کر دیا جاتا۔ والدین سے گاہے بگاہے رابطے میں رہتا ہوں کہ کوئی انکو پھر نہ جھوٹی امید دے کر خوار کرنے کسی جگہ بھیج دے۔ اس سال میں فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنے والے دوستوں کے قرب و جوار میں 86 وہیل چیئرز چاروں صوبوں میں بجھوائیں۔
جنکی قیمت 20 لاکھ روپے کے قریب ہے۔ 31 وہیل چیئرز صرف ضلع ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف بھجوائیں۔ ڈیرہ اسماعیل کے بھی اتنے کی کیس پینڈنگ پڑے ہیں۔ ان شاءاللہ اب وہاں وہیل چیئرز کے ساتھ جانا ہے۔ سال 2023 سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنے والوں کو وہیل چیئر کی فراہمی مکمل بند کرنے کا ارادہ ہے اور ہر ماہ ایک کی بجائے ان شاءاللہ دو کیس لینے کی کوشش کروں گا۔
حافظ آباد، گوجرانولہ، شیخوپورہ، لاہور، گجرات یہ پانچ ضلعے میرے قرب و جوار میں ہیں۔ عموماً میں یہیں کام کرتا ہوں۔ اس سال کوشش ہے، حافظ آباد پورے ضلعے کو ان شاءاللہ فوکس کروں اور کوئی بھی سپیشل پرسن ایسا نہ بچے جس کے پاس اچھی وہیل چیئر نہ ہو۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ ملکر ہی یہ کام ممکن ہوگا کہ وہ یہ کام اسی پیٹرن پر تحصیل اوکاڑہ میں کر چکے ہیں۔
جن دوستوں نے سال 2022 میں 17 بچوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی و شعور و آگہی کا مسافر بنانے میں مالی مدد کی، وقت دیا اور مارل سپورٹ کی انکا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ سال 2023 کا ٹارگٹ 25 بچے ہیں۔ ان شاءاللہ، گزشتہ برس ایک بچے پر ایورج نکالی تو ہمارے 50 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ میری آنکھیں پانی سے بھر جاتی تھیں، جب انجان پروفیسر ڈاکٹر لی ہوئی فیس مجھے ریفنڈ کرا دیا کرتے تھے۔
اور ٹیسٹوں میں بھی بہت زیادہ ڈسکاؤنٹ کرا دیتے۔ نئے سال میں چارپائی پر لیٹے پچیس سپیشل بچوں کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کے لیے بھی آپکا تعاون درکار ہوگا۔ کوشش کرتا ہوں بار بار ڈونیشن کی اپیل نہ کروں۔ ایک ماہ میں ایک دن ہی وہ مخصوص کیس ڈسکس کیا کروں گا، جسے ہم نے اون کرنا۔ آپ جو مجھے بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک سپیشل بچہ ہے اسے وہیل چیئر بھجوا دیں۔
آپ سے اب پیشگی معزرت ہے۔ آپ مجھ سے راہنمائی ضرور لیں کہ کونسی اور کہاں سے وہیل چیئر ملنی۔ مگر اسکے لیے فنڈز آپ اس کے والدین یا اپنے سرکل میں سے ارینج کیا کریں۔ میرے پاس کوئی ڈونیشن نہیں پڑا ہوتا کہ سب کو وہیل چیئر دے دی جائے۔ اور جسے تھوڑی سی امید دلا دی جائے وہ پیچھے ہی پڑ جاتے نہ دن دیکھتے نہ رات کہ ہمیں بس فوری وہیل چیئر بھیجیں۔
کال پر کال میسج پر میسج کرتے رہتے کہ ہماری وہیل چیئر کب آئے گی۔ اور یہاں میں کسی ڈونر کی تلاش میں ہوتا۔ کہ کوئی ملے تو انکو وہیل چیئر بھیجوں۔ یہ پریکٹس اب ایک سال کے لیے ختم کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ لوگ میری کیفیت کو سمجھیں گے کہ میرے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے نہ اتنے پیسے کہ ہر کسی کو ڈیل کر سکوں اور سپیشل بچوں کے والدین خواہ وہ غریب ہیں یا امیر انکی خواہش ہوتی کہ وہیل چیئر فری مل جائے کہیں سے۔
معذوری اور امداد یا خیرات یا رشتہ صدیاں پرانا ہے۔ اسے توڑتے ہوئے وقت لگے گا۔ وہ والدین بھی ایک بیس تیس ہزار کی وہیل چیئر بچے کو لیکر نہیں دے رہے ہوتے جنکی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہوتی۔ کہ کہیں سے مفت میں ہی مل جائے۔ انکے باقی سب بچوں کے پاس بائیکس اور گھر میں گاڑی بھی اکثر ہوتی ہے۔ اس عجیب سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ وہیل چیئر کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور بچے کو فوری خرید کر دیں۔
وہیل چیئر انکی ترجیح بلکل بھی نہیں ہوتی۔ علاج کا کوئی جہاں بھی بتائے وہاں ضرور جاتے ہیں۔ چاہے حاصل کچھ بھی نہ ہو، مگر اپنے بچے کو چلنے پھرنے میں ایک اچھی و معیاری وہیل چیئر کی صورت میں جو آسانی دے سکتے وہ نہیں دینی۔