Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Teaching Ke Sath Part Time Jobs

Teaching Ke Sath Part Time Jobs

ٹیچنگ کے ساتھ پارٹ ٹائم جابز

ایک سرکاری سکول کے ٹیچر یا کالج کے لیکچرر کو جاب کے ساتھ اکیڈمی چلاتے، پیپر مارکنگ یا امتحانی ڈیوٹی کرتے ہی دیکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ ہو تو اوپن یونیورسٹی کی اسائنمنٹس اور ورکشاپ آمدن کا ذریعہ بنتی ہیں اور بڑی سادہ سی محدود سی زندگی گزارنا ہی ایک استاد سے منسوب ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ سکولز اور کالجز بلکہ یونیورسٹی میں ایک لیکچرار کی تنخواہ بھی مہنگائی کے تناسب بنیادی گزر بسر کے لیے بڑی مشکل سے پوری آتی ہے۔ پیٹ کاٹ کر کمیٹیاں ڈال کر اور جی پی فنڈ بار بار نکلوا کر زندگی گزاری جاتی۔ ہمارے استادوں کی زندگی بھی ایسی تھی اور آج ہم خود اسی شعبے میں ہیں تو وہی پریکٹس ہم بھی اپنا چکے ہیں۔

کیا کوئی سرکاری ملازم کاروبار نہیں کر سکتا؟ اس بات کو کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ کہ کس قسم کا کاروبار کرنے کی سرکار اجازت نہیں دیتی۔ وہ ایسا کہ آپ اپنی ملازمت کا غلط استعمال نہ کر سکیں یا اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکیں یا اپنے کام کے ساتھ انصاف نہ کر سکیں۔ ایک استاد کے پاس چھوٹے پیمانے پر بزنس کے بے شمار آپشن ہوتے ہیں اگر وہ کمفرٹ زون سے نکل کر کچھ کرنا چاہیں۔ انویسٹمنٹ اور انویسٹمنٹ کے بغیر بے شمار آپشن ہوتی ہیں۔ بس کچھ کرنے اور اپنے مالی حالات بدلنے کی سوچ خود سے آئے نہ کہ کسی کو کاپی کیا جا رہا ہو۔

ایک ٹیچر سے آج ملاقات ہوئی۔ انکے پاس تھوڑا سا زیور تھا اور زیور کا ریٹ آجکل بہت بڑھا ہوا۔ بیچ کر قربانی والے چار جانور لے آئے ہیں۔ جو پانچ لاکھ کے آئے ہیں اور سائلیج (بنا بنایا چارہ) ڈالنا ہے یا کھل چوکر وغیرہ۔ کھیتوں میں جا کر چارہ کاٹ کر لانے والا سین اب ختم ہو چکا۔ عید قربان میں ابھی پانچ ماہ ہیں۔ محنت تو ظاہر ہے ہوگی مگر یہ پانچ لاکھ کی انویسٹمنٹ امید ہے ان شاءاللہ دو تین لاکھ تک ضرور نفع دے جائے گی۔ پھر ان پیسوں کو کسی اور کام میں ایسی ہی شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ میں لگایا جا سکے گا۔ کہ جب بھی چاہیں اپنی رقم نکال سکیں۔ یہ جانور چاہے آج ہی بیچ دیے جائیں ان شاءاللہ نفع ہی دیں گے۔

وہ کیونکہ دیہاتی ہیں تو یہ کام ان کو آسان لگا۔ کچھ دوستوں نے زمین ٹھیکے پر لے کر تربوز لگائے ہیں کچھ موٹر سائیکل کا لین دین کر رہے ہیں۔ کچھ لاٹوں سے کیبل وائر لے آتے اور اس سے نکلنے والی مختلف دھاتیں جیسے پیتل، سلور، لوہا، پلاسٹک وغیرہ الگ الگ بیچ کر پیسے کما رہے۔ اور جو ہنرمند ہیں تو پلمبر اور الیکٹریشن کا کام ڈیوٹی کے بعد کر کے اپنی تنخواہ سے ڈبل ٹرپل پیسے کما رہے ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں نہ کہ سیلری کے کم ہونے پر پریشان رہیں اور بچوں کو پڑھانے کی کوئی موٹیویشن ہو نہ کوئی جذبہ۔

تنخواہ ہی ایک آمدن کا ذریعہ ہو تو کچن چلانا ہی مشکل ہو چکا۔ میرے دوست جانتے میں خود چھوٹے موٹے ایسے کئی جوڑ توڑ کرتا رہتا ہوں۔ کہیں نفع ہو جاتا کہیں نقصان اور ایسا ہونا نارمل ہے مگر لرننگ بہت ہوتی ہے۔ وہ مجھے منع ہی کرتے رہتے کہ ایسے پنگے نہ لیا کرو مگر میں باز نہیں آتا۔ بس جتنے پیسے پاس ہوں کچھ نہ کچھ لیتا دیتا رہتا ہوں۔

اساتذہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ اداروں میں سب سے کہوں گا اپنے ذوق اور مہارت اور لوکیلٹی کے مطابق کچھ بھی جوڑ توڑ ضرور شروع کریں۔ ورنہ مہنگائی کا طوفان مالی مشکلات کو ڈپریشن میں بدل دے گا۔ اور ایک ڈپریس و مالی مشکلات میں گھرا ہوا استاد کیسی قوم تیار کرے گا؟

Check Also

Asal Muslim

By Muhammad Umair Haidry