Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Taraqi Aur Jealousy Ki Dour

Taraqi Aur Jealousy Ki Dour

ترقی اور جیلیسی کی دوڑ

سوشل میڈیا نے جہاں مجھے بہت سے نئے دوست دئیے ہیں وہاں بہت سے قریبی دوستوں کو دور بھی کر دیا ہے۔ جن لوگوں میں ہم پلے بڑھے ہوتے ہیں اگر ان سے کسی بھی پیمانے میں آگے نکل جائیں تو ان میں سے اکثر اس چیز کو برداشت نہیں کرتے۔ حسد کرنے لگ جاتے ہیں۔ تسلیم نہیں کرتے۔ میرے ساتھ ایسا تب سے شروع ہوا جب 2014 میں میری سکیل سترہ میں سلیکشن ہوئی تھی۔ ہمارا گاؤں بڑا مشہور ہے۔ تاریخی گاؤں ہے۔ میں اس گاؤں کی تاریخ میں پہلا لڑکا تھا جو 17 سکیل میں بھرتی ہوا۔ یہ چیز چند قریبی دوستوں کو ہمیشہ کے لیے دور کر گئی۔ کہ یہاں تک ہم کیوں نہ پہنچے۔ حالانکہ یہ کوئی بڑی بات ہر گز نہیں ہے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر تھوڑی سی جان پہچان ہوئی تو وہی لوگ اور بدکنے لگے، کہ اسکے ساتھ تو بڑے بڑے لوگوں کی سلام دعا ہو رہی ہے۔ گاؤں جانے پر ان کے چہرے ان کے اندر کا حال واضح بتا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ کئی تو اب سلام دعا لینے سے بھی گئے ہیں۔ جب آپس میں بیٹھتے تو میرے کاموں میں نقص نکال کر خوش ہوتے رہتے ہیں حالانکہ وہ خود کچھ بھی کرنے جوگے نہیں ہیں۔

ہمارا گھر ایک پانچ فٹی بند گلی میں تھا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ گھر کے پیچھے موجود جوہڑ کو مٹی سے بھر کر وہاں ٹاؤن بنا دیا گیا۔ ٹاؤن کے مالک شیخ صاحب کی مہربانی انہوں نے ہمارے گھر کو کھلا رستہ دے دیا اور ہم نے گیٹ لگا لیا۔ یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہماری گاڑی ہو گی اور اگر ہو گی بھی تو وہ اسی گھر میں آ جائے گی۔ کھلا رستہ گھر تک آ جانے سے ظاہر سے جگہ بھی قیمتی ہو جاتی اب یہ چیز انکے دلوں پر اور بلڈوزر چلا گئی ہے۔

وہ ٹاؤن والا شیخ ایسا بندہ ہے جو کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ہمارے گھر کو کھلا رستہ نہ ملتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم خدا کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں اور اسکے کام آتے ہیں تو وہ ہمارے وہ کام آسان بنا دیتا ہے جو ہم نے کبھی سوچے بھی نہیں ہوتے۔ ہمارے گھر کا ٹاؤن میں آنا اسکی واضح مثال ہے۔ لوگ دیہاتوں کو اسی وجہ سے چھوڑتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو آپکے خلاف چالیں چلنے اور اللہ واسطے کا بیر رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔

کچھ تو باقاعدہ لڑائیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ چالیں چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس آپ کو ان سے تھوڑا سا آگے نکل جانا ہے۔ وہ بگاڑ کسی کا کچھ بھی نہیں سکتے بس اپنے آپ میں اور اپنے جیسوں میں بیٹھ کر جلتے کڑھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ آپ ان کو بھی گائیڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے کہ آپ بھی آگے بڑھیں۔ انکے دل میں یہی ہوتا کہ تمہاری بجائے ہمیں یہاں ہونا چاہیے تھا۔ ہم تو آگے جائیں کسی طرح تم ناکام ہو جاؤ تو بات بنے۔

میں نے چند دوستوں سے تعلق نبھانے کی کوشش کی مگر ناکام ہی رہا۔ بالآخر مجھے ان دوستوں کو فیس بک سے بلاک کرنا پڑا۔ ایسا صرف ان کو آسانی دینے کو کیا کہ نہ دیکھیں نہ دل جلائیں۔ ان کے نمبر بھی ڈیلیٹ کر دیے ہیں کہ میرے وٹس ایپ سٹیٹس بھی گاؤں میں ڈسکس ہوتے ہیں۔ اور ٹرولنگ کی جاتی ہے بس اپنے اندر کا کوڑھ ہی نکالا جاتا اور کچھ بھی نہیں۔ نسلوں کی نسلیں اس جہالت میں مر کھپ گئیں اور یہ چیز کسی صورت ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔

استادوں اور علماء کو اس چیز پر کھل کر بات کرنی چاہیے اور نسلِ نو کو اس گھٹیا پریکٹس سے نکالنا ہو گا۔ اور یہ چیز میں نے دیکھا ہے کہ شہروں میں بھی موجود ہے۔ ایویں ہی کسی سے ٹسل بنا لی جاتی۔ اسکا قصور بس یہی ہوتا وہ تھوڑا سا آگے نکل جاتا اور یہ چیز ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس چیز نے مجھے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی پریشان نہیں کیا نہ اس چیز کو کبھی اہمیت دی ہے۔ بس انکے حال پر ترس آتا ہے کہ انکے بڑے بھی یہی کرتے مر گئے اور یہ بھی انکے ہی نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔

کیا ایسا باہر کے ممالک میں بھی ہوتا ہے؟

Check Also

Aman Ka Paigham Koi Nayi Jang Nahi Hogi

By Javed Ayaz Khan