Spina Bifida Ke Mareez Ki Shadi Mumkin Hai
سپائنا بفیڈا کے مریض کی شادی ممکن ہے
کسی کو چاہنا یا خود چاہے جانا، شادی کرنا، والدین بننے کی خوشی کو محسوس کرنا ایک فطری جذبہ ہے۔ مگر یہ سب احساسات دنیا بھر میں موجود کروڑوں لوگوں کا مقدر نہیں بن پاتے۔ ان میں سے ایک گروپ سپیشل افراد کا ہے کہ معذوری کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ شادی ممکن نہیں ہوتی۔ کہیں شادی تو ممکن ہوتی ہے مگر بچے پیدا کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
سپائنا بفیڈا ایک ایسا نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ ہے جس پر پیدائشی طور پر کمر کے نچلے حصے پر ایک غبارے نما ابھار ہوتا ہے۔ کچھ بچوں کو اسکے ساتھ ہی دماغ میں پانی بھی ہوتا ہے جسے ہائیڈرو سیفلس کہتے ہیں۔ یہ دونوں کنڈیشنز ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں اور الگ الگ بھی ہو سکتی ہیں۔
چند دن قبل ایک بھائی نے رابطہ کیا کہ وہ سپائنا بفیڈا کی سب سے شدید قسم مائیلو میننگو سیل Myelomeningocele کے ساتھ ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم میں ہوتا یہ ہے کہ ہماری سپائنل کارڈ ہی سپائن سے باہر نکل جاتی ہے۔ سپائن کیونکہ ٹھیک سے جڑی نہیں ہوتی تو سپائنل فلیوڈ اور سپائنل کارڈ باہر نکل کر کمر پر ایک ابھار بنا دیتے ہیں۔ بچپن میں اس کا آپریشن ممکن ہے۔ مگر آپریشن کے بعد باؤل اور بلیڈر کنٹرول کے ساتھ نچلے سارے دھڑ کا کنٹرول اکثریت کیسز میں ختم ہو جاتا ہے۔ یورین اور سٹول خود ہی پاس ہو جاتا ہے اور معلوم بھی نہیں ہوتا۔
جس بھائی نے رابطہ کیا ان کو صرف سپائنا بفیڈا ہی پیدائشی طور پر تھا۔ اب انکے کیس میں کمر پر ابھار کے اوپر اسکن تھی۔ باریک جھلی نہیں تھی اور ابھار بہت بڑا نہیں تھا۔ تو آپریشن نہیں کروایا گیا۔ جب بڑے ہوئے تو کھڑے نہیں ہو سکے اور بلیڈر کنٹرول بھی جزوی تھا۔ اب جب یورین ہی خود پاس ہو جاتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ جسمانی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت ناپید ہے۔ اسے impotence یا عرف عام میں Erectile dysfunction کہا جاتا ہے۔ وہ چاہ رہے تھے کہ اس کا علاج کرواؤں اور شادی کی طرف جایا جائے۔
بحثیت ری ہیبلی ٹیشن کاؤنسلر میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں امید نہ توڑوں اور ایسا نہ کہوں کہ آپ کی شادی نہیں ہو سکتی۔ ان کو گائیڈ کیا کہ آپ حمید لطیف ہسپتال لاہور وزٹ کریں۔ امید ہے کوئی حل نکل آئے گا۔ اگر تو آپ کا سپرم کاونٹ ٹھیک ہوا تو مصنوعی طریقے سے حمل ممکن ہوگا۔ اب ایک اور ایشو ہے کہ سپرم حاصل کیسے کیے جائیں؟ وہ صلاحیت ہی ناپید ہے۔ پہلے تو معلوم یہ کرنا ہے کہ سپرم پیدا بھی ہو رہے ہیں کہ نہیں۔ ان کا کاؤنٹ ٹیسٹ تو اگلا سٹیپ ہے۔
تو اس کا بھی حل موجود ہے۔ جس طرح کسی لڑکی کا بیضہ فطری طور پر ریلیز نہ ہو رہا ہو تو ڈاکٹر ایک خاص سرنج انجیکٹ کرکے بیضہ دانی سے بیضے حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح نطفے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسکے لیے فطری طریقے کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں۔
اب پہلے تو ان کا یہ ٹیسٹ ہوگا کہ سپرم پیدا بھی ہو رہے ہیں کہ نہیں۔ اسکے بعد impotence کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جو تقریبا نا ممکن ہے۔ اس کیس میں اگر خوش قسمتی سے متذکرہ بالا بھائی کے پاس سپرم ہوئے۔ تو وہ باپ بن سکتے ہیں مگر جسمانی تعلق قائم کئے بغیر۔ آئی وی ایف اسکی ایک معروف قسم ہے۔ اسکے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں۔
اب اگلی بات کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس بات کا شعور ابھی بہت کم ہے۔ کہ کسی لڑکی کو یا اسکے گھر والوں کو یہ بات سمجھائی جا سکے۔ کہ تمہارا خاوند تمہارے ساتھ کبھی بھی فطری جسمانی تعلق قائم نہیں کر پائے گا۔ مگر تم ماں بن سکو گی۔ ایسی بات کرنے پر بھی لڑکی یا اسکے گھر والے مخالف فریق کی ماں بہن ایک کر دیں۔ لڑکی کی یا اسکے گھر والوں کی اس ضمن میں کاؤنسلنگ کرنا جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہے۔
ہاں ہمارے ہاں جیسے عام ہوتا ہے کہ لڑکی کی اپنی ذات میں کوئی اور کمی ہو تو شاید وہ ایسا سوچ لے۔ یا کوئی بیوہ طلاق شدہ لڑکی جس کے پاس ایک دو بچے موجود ہوں۔ وہ ایک وہیل چئیر والے خاوند کو قبول کر لے۔ تو نئی شادی سے بھی ایک بچہ آئی وی ایف کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لڑکی کو خاوند کا ساتھ مل جائے گا۔ خاوند کا گھر مل جائے گا اور لڑکے کو بیوی بچے اور خاندان مکمل ہونے کی خوشی۔ ایسا کرنے کے لیے ہمارے معاشرے میں لڑکے کے پاس مالی آسودگی کا ہونا ایک لازمی شرط ہے کہ پیسہ بڑے سے بڑے عیب بھی چھپا دیتا ہے۔