Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Special Bachon Ka Ustad

Special Bachon Ka Ustad

سپیشل بچوں کا استاد

آج شام حافظ آباد ایک شادی پر جانا ہوا۔ شہر کے وسط میں فوارہ چوک گول چکر ہے۔ ٹریفک بلاک تھی۔ میں بائیک پر تھا۔ میں نے اوپر سے گول چکر کاٹنے کی بجائے ایک سائیڈ سے ہی نکلنے کی کوشش کی کہ بہت آندھی آرہی تھی اور میں پہلے ہی لیٹ تھا۔ جیسے ہی رش سے نکلا آگے کھڑے ٹریفک وارڈن نے بائیک روک لی۔ بڑے احترام سے پوچھا سر لائسنس ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کاغذات ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔

شناختی کارڈ ہے؟ میں نے کہا جی۔ بولے دیجئے آپ غلط سمت میں آئے ہیں چالان ہو گا۔ میں نے کہا جی میری غلطی ہے۔ ضرور چالان کریں مگر ذرا جلدی کریں۔ اپنی عادت ہے غلطی ہوئی ہے تو فوراً مان لو۔ اگلے کو پورا حق دو سزا دے یا معاف کرے اس کی مرضی ہے۔ دونوں خوشی سے قبول ہیں۔ انہوں نے شناختی کارڈ لیا اور موبائل ایپ سے چالان فارم پر کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا سپیشل بچوں کا استاد ہوں۔ ڈیٹا ٹائپ کرتے فوراً رک گئے۔

اور بولے سر پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میں نے کہا اس میں بتانے والی کیا بات ہے؟ بولے سر میں آپ کا چالان کیسے کر سکتا ہوں؟ آپ استاد ہیں۔ میرا شناختی کارڈ مجھے واپس کر دیا۔ میں نے دو بار کہا کہ آپ چالان کر لیں میں خوشی سے کہہ رہا ہوں۔ کوئی ناراض تھوڑا ہی ہوں گا آپ سے۔ آپ اپنی ڈیوٹی کریں مگر وہ نہ مانے۔ میں یہاں بتا دوں میرا آج تک کی زندگی میں ایک بھی چالان نہیں ہوا اور میں نے غلطی ہونے پر کبھی بھی کسی ٹریفک وارڈن کا ترلہ نہیں کیا کہ معاف کر دو، آئندہ نہیں کروں گا۔

ناں کسی کا فون کروایا حالانکہ درجن کے قریب وارڈن دوست ہیں۔ یہ بھی بتا دوں مجھے آج والی غلطی سمیت اب تک کوئی تین یا حد چار بار روکا گیا ہو گا مگر چالان نہیں ہو سکا۔ جیب سے ان کا نام پڑھا تو ظفر لکھا تھا۔ میں نے کہا آپ کا گاؤں کونسا ہے؟ بولے میاں رحیما، میں نے کہا وہاں گاؤں کے ہی سکول میں میرے دوست امجد بھٹی صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں۔ بولے جی بالکل ان کی ایک ہمشیرہ رنگ روڑ پولیس میں ہیں۔

ایک بھائی ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ میں آفیسر ہیں۔ میں نے کہا بالکل وہی ہیں۔ یوں ہم دوست بن گئے۔ انہوں نے میرا فون نمبر بھی لے لیا۔ ظفر بھائی نے بتایا کہ ان کا میرے جیسا ہی ایک بیٹا لاہور ایجوکیشن یونیورسٹی سے بی ایس سپیشل ایجوکیشن کر رہا ہے۔ میں نے کہا جب چھٹیوں میں گھر آئے تو اسے ضرور میرے پاس بھیجئے گا۔ بولے ضرور بھیجوں گا اسے گائیڈ کیجیے گا آگے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کیسے کرنی ہے۔ میں نے کہا جی ضرور۔

شادی سے واپسی پر ایک کیلے کی ریڑھی پر رکا۔ اہلیہ نے کہا تھا کہ ایک درجن کیلے اور املی آلو بخارے کا شربت لے کر آئیے گا۔ ریٹ پوچھا تو انکل بولے 150، لے جائیں۔ میں نے کہا ایک درجن کر دیں۔ بولے دو درجن کر لیں 120 روپے درجن کے حساب سے دے دیں۔ میں نے کہا کر دیں۔ انہوں نے دو گچھے گنے جو اکتیس کیلے ہوئے۔ بولے اڑھائی درجن کر دوں؟ رات کے دس بج چکے تھے اور ان کے پاس ابھی کافی فروٹ تھا۔

میں نے جی کر دیں کہا، کیلے لیے، پیسے دیے اور ان کو کہا انکل آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے اتنے اچھے کیلے دیے۔ آپ کی بہو بڑی خوش ہو گی سستے اور اچھے کیلے لایا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں تو دو سو کی درجن ہیں ایسے اچھے کیلے۔ انہوں نے کہا شکریہ تو آپ کا جو ایک درجن کی بجائے میرے کہنے پر اڑھائی درجن کیلے لے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ سارے دن سے یہاں دھوپ میں کھڑے فروٹ بیچ رہے ہیں۔ آپ میرے والد کی مانند ہیں۔ مجھے بہت عزیز ہیں۔ آپ پانچ درجن بھی کہتے تو میں لے جاتا۔

بولے بیٹا آپ کرتے کیا ہیں؟ میں نے کہا سپیشل بچوں کا استاد ہوں، یہ سن کر نجانے کیوں بڑے جذباتی سے ہوگئے۔ مجھے 50 روپے واپس کر دیے کہ کیلے سو روپے درجن خود کو پڑے ہیں آپ سے منافع نہیں لینا۔ آپ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ میں نے کہا اس کام کی تو حکومت مجھے میری ضرورتوں سے کچھ زیادہ ہی ہر ماہ تنخواہ دیتی ہے۔ آپ پلیز یہ پیسے واپس نہ کریں۔

میں نے بہت اصرار کیا مگر نہ مانے۔ نام پوچھا تو بولے منظور دیندار نام ہے میرا۔ پیلو گاؤں سے شہر آ گئے ہوئے ہیں۔ بیٹا جب بھی شہر آئیں یہاں سے سودا لیجئے گا، میں یہیں کھڑا نظر آؤں گا۔ ریلوے پھاٹک سے اندرون شہر کی طرف طارق ٹرنگ ہاؤس والی سائیڈ پر اسی دوکان کے پاس وہ انکل کھڑے تھے۔

ان دونوں واقعات سے آپ اپنی مرضی کے سبق لے سکتے ہیں۔

Check Also

Kahani Kari

By Arslan Amjad