Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Shareek

Shareek

شریک

آج سے بیس سال پرانی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں اڈے (رکشہ/ بس اسٹاپ) پر ایک دوکان برائے فروخت تھی۔ اس دوکان کا مالک میرے دادا جی کا چچا زاد بھائی تھا۔ ابو جی سعودیہ سے چھٹی آئے ہوئے تھے۔ ان کو بھی علم ہوا تو رات کو ان کے گھر گئے۔ رشتے میں تو والد صاحب کے وہ چچا لگتے تھے۔ اللہ جنت نصیب کرے وفات پا چکے ہیں۔ دوکان کی قیمت 80 ہزار روپے مانگی جا رہی تھی۔ ابو نے کہا چچا جی یہ جگہ ہمارے آباؤ اجداد کا گھر ہوا کرتا تھا۔ آپ دوکان کسی اور کو نہ بیچیں مجھے بیچ دیں۔ انہوں نے کہا شفیق میں تمہیں دوکان کیسے بیچ دوں۔ تم میرے شریک ہو اور تم میری دوکان کیسے خرید سکتے ہو۔

ابو نے کہا کہ میں تو آپ کے بچوں جیسا ہوں اور ہمارا تو آج سے پہلے کوئی تنازع بھی نہیں ہے۔ بولے یہ بات کیا کم ہے کہ میری جگہ خریدنے کے قابل میرے شریک کا بیٹا، میرے ہاتھوں کا جم پل ہوگیا ہے۔

تم 80 ہزار کیا 80 لاکھ بھی دو تو دوکان تمہیں نہیں مل سکتی۔ وہ دوکان حکیم اشرف نے 80 ہزار کی ہی خریدی اور اسے کہا گیا کہ جب بھی بیچو شفیق (میرے والد) کو نہ بیچنا۔ حکیم صاحب نے چند سال قبل وہ دوکان میرے ایک دوست کو بیچی۔ خیر ہم اس کے اب کی بار خریدار بھی نہیں تھے۔ ایک دوکان بیچی گئی پھر وہاں موجود انکی ہی باقی کی پانچ مرلے جگہ بھی بیچ دی گئی۔

ہمارے رشتے میں ایک اور دادا جی کی وہاں ہی اڈے پر دوکان تھی۔ انہوں نے بھی وہ دوکان ہمیں نہ بیچی۔ ایک آخری دوکان باقی تھی اور ہم نے ان سے سو بار کہا کہ وہ ہمیں دینا۔ مگر انہوں نے بھی وہ دوکان کسی اور کو بیچ دی۔ یہ کل 4 دوکانیں تھیں۔ جو میرے والد صاحب کو شریک سمجھ کر نہیں بیچی گئیں۔ کہ ہماری جگہ پر ہمارا شریک نہ بیٹھے۔ کوئی دوسرا جو مرضی ہو۔

خیر سب سے پہلے جن کا ذکر کیا۔ انکی زندگی میں اللہ نے مال و دولت کی فراوانی دی تھی۔ کویت میں ملازمت کرتے تھے۔ جب واپس آئے۔ یہاں رہنے لگے تو باپ سے ورثے میں ملی ساری پراپرٹی بیچ کر آخری وقت بڑی مشکل میں گزارا۔ اولاد آج کوئی چنگ چی چلا رہا ہے۔ اور کوئی کسی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ دوسرے لوگوں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔

اسی گاؤں میں جہاں خون کے رشتوں نے ہمیں شریک سمجھ کر ایک دوکان نہیں دی تھی۔ وہیں اللہ رب العزت کی ذات نے دس سال قبل مین روڑ پر بلکہ چوک میں روڑ پر 150 فٹ لمبائی والی جگہ دی۔ ایک درجن دوکانیں بنتی ہیں۔ اس شفیق کے بیٹوں کی جسے ایک ایک دوکان نہیں دی گئی تھی۔ اور جتنا مرضی بڑا گیٹ پیچھے بچنے والی جگہ کو لگا لیں۔ جس کچن گارڈن کی تصاویر لگاتا وہ وہی جگہ ہے۔ 22 مرلے کا کمرشل پلاٹ ہے۔ مزے کی بات سنیں۔ وہ پلاٹ جس نے ہمیں بیچا اس کی بھی ضد تھی کہ اپنے شریکوں کو نہیں دینا۔ چاہے وہ ڈبل قیمت ہی کیوں نہ دیں۔ اس نے ہمیں بھی کہا کہ جب کبھی بیچیں فلاں فلاں کو ایک فٹ بھی جگہ نہیں دینی۔

ہمیں جگہ نہ دینے والے کچھ تو وفات پا چکے کچھ گاؤں چھوڑ چکے۔ کچھ زندہ ہیں اور زندگی کے دن محنت مزدوری کرکے سفید پوشی سے کاٹ رہے ہیں۔ آنے والے ویک اینڈ پر چھوٹے بھائی کی شادی ہے۔ ابو جی نے سب کو کارڈ بھیجے ہیں۔ کہ خوشی کے موقع پر سب شریک ہوں۔ خوشی غمی کے سوا بھی ہمیشہ ان کے سب گھروں میں جاتے ہیں۔ اور کبھی ایک لمحے کو بھی افسوس نہیں کیا نا ان سے ناراض ہوئے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ وہ کہتے ہیں جو انہوں نے کیا وہ اتنا ہی ظرف رکھتے تھے۔ دیہاتوں میں لوگ ایسے ہی سوچتے ہیں۔ میں بھی قطع تعلقی کرکے ان جیسا نہیں بننا چاہتا۔ مجھے اور میرے بیٹوں کو اللہ نے بہت دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد پر اپنا فضل وکرم فرمائے اور وہ لوگ خوشحال ہوں۔ ہم سب ایک ہی دادے کی آل اولاد ہیں۔ ان کو اپنی قیمتی ترین جگہیں بیچ کر پریشان حال دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔

آپ کے آس پاس بھی ایسے ہزاروں واقعات ہونگے۔ آپ کے ساتھ بھی اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے ہونگے۔ کہ ہمارے اپنے خون کے رشتے ہی سب سے زیادہ ہمارے دشمن بن جاتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ ہم محنت کرکے ان سے مالی طور پر یا کسی اور پیمانے میں کچھ بہتر ہو جاتے ہیں۔ اب وہ ہم سے کچھ چھین تو نہیں سکتے بس حسد کی آگ میں خود بھی جلتے ہیں اور اپنی نیکیوں کو بھی آگ لگاتے ہیں۔ سارے ایسے نہیں ہوتے مگر اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ ہوتے ہیں اصلی خاندانی لوگ۔ کسی بھی قوم سے ہوں کسی بھی ذات سے ہوں امیر ہوں یا غریب بس ظرف کے بڑے ہوں۔ کسی اپنے کی خوشی یا کامیابی پر خوش ہونے والے اور اسے دعا دینے والے۔

اولاد وہی کرتی ہے جو وہ اپنے والدین کو کرتا دیکھتی ہے۔ ماں پر بیٹی ہوتی ہے اور بیٹے باپ کو کاپی کرتے ہیں۔ میری دعا ہے وہ سب لوگ اپنے بڑوں کی سوچ اور اعمال کو کاپی نہ کریں۔ اور ہم اپنے باپ کی اولاد دو بیٹے ہیں۔ ہم اپنے باپ کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیسے ہیں۔ ہم اپنی اگلی زندگی میں ان کو کاپی کریں گے۔ یہ باتیں ہمیں کتابوں میں نہیں پڑھائی جاتی۔ ہم گھر سے سیکھتے ہیں۔ کسی کی سوچ کا معیار معاملات کی نوعیت اور ظرف کا تعین اسکے والدین کی زندگی کرتی ہے۔

لوگوں سے ناراض نہ ہوا کریں۔ غصہ نہ کیا کریں۔ کہ وہ جیسا آپ سے پیش آتے ہیں۔ ایسا انہوں نے اپنے والدین کو کرتے دیکھا ہوگا۔ آپ انکی غلط تربیت پر اپنی درست تربیت کیوں خراب کریں؟ گھٹیا سوچ کسی اور کی ہو اور آپ خواہ مخواہ اپنا دل جلاتے رہیں؟ یہ کیسی عقلمندی ہے؟

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini