Shadi Kis Umar Mein?
شادی کس عمر میں؟
یہ سال 1915 کی بات ہے۔ ٹیکساس امریکہ کے ایک کالج میں دو کولیگ ایک ٹیبل پر بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔ خاتون ایلا قانون کی پروفیسر تھیں اور مرد استاد جیمز سوشل ورک کا پروفیسر تھا۔ یہ دونوں اچھے دوست تھے۔ جیمز نے کہا کہ ہم کئی سال سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اب ہمیں شادی کر لینی چاہئیے۔ ایلا بولی ابھی میں بچوں اور خاندان کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے اہل نہیں ہوں۔ جیمز بولا تمہاری عمر کیا ہے۔ 35 ایلا نے بے دھیانی سے جواب دیا۔ جیمز بولا یہ تو بلکل ٹھیک عمر ہے اسکے چند سال بعد تو ہم جوان نہیں رہیں گے۔ ایلا اس بات پر غصہ ہوگئی اور بولی تم ہوتے کون ہو یہ طے کرنے والے کہ جوانی کی عمر کیا ہے؟ اور ایک امریکن عورت کو کس عمر میں شادی کرنی چاہئیے۔ جیمز بولا میں وہ مرد ہوتا ہوں جس سے ایک امریکن عورت نے شادی کرنی ہے۔
بولی اگر تم انکار کر دو گے تو کیا اس دنیا کا کوئی اور مرد مجھ سے چند سال بعد شادی نہیں کرے گا؟ جیمز بولا ضرور کرے گا مگر شاید ویسا نہیں ملے جیسا تم چاہوگی۔ آج تم جوان ہو جیسا چاہو لائف پارٹنر چن سکتی ہو۔ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں کا اس بات پر بریک آپ ہوگیا۔ دس سال گزر گئے۔ جیمز کی شادی ایلا کی ہی ایک سٹوڈنٹ "میری" سے ہوگئی۔ اور انکے تین بچے بھی ان دس سالوں میں ہوگئے۔ ایک سماجی سیمنار پر ایلا اور جیمز کی ملاقات ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہوئے گزرے ہوئے دس سالوں کا احوال پوچھا۔ ایلا نے بتایا کہ وہ اپنی ایک کولیگ کے ساتھ ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتی ہے۔ اس کو ساتھ رہنے کے لیے کسی مرد کے سہارے یا اپنا دلہا بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ شادی بھی ضرور کرنی ہے۔ تو وہ ایک پٹیشن تیار کر رہی ہے۔ جس میں وہ ایک عورت سے نکاح کروا کر میرج سرٹفیکیٹ حاصل کر سکے۔ یہ رواج اب پرانا ہوا کہ شادی مرد سے ہی ہوگی۔ ہماری اپنی مرضی ہے جس عمر میں چاہیں شادی کریں اور جس جنس میں چاہیں وہاں کریں۔ ہمیں مردوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
جیمز تمہیں یاد ہو تم نے کہا تھا ناں کہ میں وہ ہوں جس سے تم نے شادی کرنی ہے۔ تمہارا یہ طعنہ اب ماضی بن جائے گا۔ ایلا نے سپریم کورٹ آف امریکہ میں یہ پٹیشن دائر کر دی کہ وہ ایک عورت سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جن خواتین کی شادی کسی وجہ سے نہیں ہو پا رہی تھی یا انکو اپنے بوائے فرینڈ یا خاوند سے دھوکہ ملا ہوا تھا وہ اب اپنی آخری سانس تک مرد ذات پر ہی لعنت بھیج چکی تھیں۔ پورن سٹارز اور اعلانیہ و خفیہ جسم فروشی کرنے والی خواتین نے اس پٹیشن میں فریق بننے کی درخواست دی کہ ہم بھی ایلا کے ساتھ ہیں۔ مرد کو اور گھریلو خاندانی نظام کو اپنی ترقی اور خود مختاری کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والی تمام مکاتب فکر سے خواتین نے اس بات کو سپورٹ کیا اور یہ ایک تحریک بن گئی۔
ان خواتین کی تعداد چند سالوں میں لاکھوں تک جا پہنچی اور بالآخر سال 2015 میں ایک صدی کی جدوجہد کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک ہی جنس کو آپسی شادی کی قانونی اجازت دے دی۔ کسی ڈونر کے عطیہ شدہ سپرم سے وہ ماں بھی بن جاتی ہیں اور بچے پیدا کر لیتی ہیں۔
پچھلے تین دن میں اپنی آنکھوں سے تیس خواتین کا لکھا ہوا یہ جملہ پڑھا ہے کہ یہ نام نہاد مرد ہوتے کون ہیں جو ہم عورتوں کی شادی کرنے کی عمر طے کریں۔ اس پر سروے کروائیں اور نتائج شئیر کرتے پھریں۔ حالانکہ اس سروے میں کم از کم عمر 25 سال رکھی گئی تھی۔ بریک کے بغیر تعلیم حاصل کریں تو ایم فل ہو جاتا اس عمر میں۔ سچی بات ہے میں تو ڈرتے ہوئے جیمز کی طرح ان کو یہ بھی جواب نہیں دے سکتا کہ ہم وہ مرد وہی ہوتے ہیں جن سے جس بھی عمر میں کریں شادی آپ نے ہم سے ہی کرنی ہے۔ کہ سپریم کورٹ میں نہ چلی جائیں کہ دفع ہو جاؤ تم سب ہم آپس میں ہی شادی کر لیں گی۔
بس ایک آخری بات یاد رکھیں اگر آپ کی اپنی شادی کسی بھی وجہ سے 35 تک نہیں ہو سکی تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان میں شادی کی سب خواتین کے لیے یہ نارمل عمر ہے۔ آپ شادی کریں یا نہ کریں وہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔ آپ کو پورا حق ہے اپنی زندگی کا جو مرضی فیصلہ کریں۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
آپ اگر اس بیانیے کو نارمل کرنے کی تبلیغ کریں گی اور اس پر فخر کریں گی تو ہم بھی آپ کا یہ بیانیہ ڈیمج کرنے سے باز نہ آئیں گے۔ کہ یہ عمر ہر گز تمام غیر شادی شدہ لڑکیوں کے لیے نارمل نہیں ہے۔ ایک ابنارمل چیز کو تعلیم، کیرئیر، ملازمت، مالی خود مختاری، جیسے الفاظ کے پیچھے چھپا کر نارمل کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟ شادی کی نارمل عمر پاکستان میں 25 ہی ہے۔ مرد ہوں یا خواتین۔ اور اکثریت میں شادیاں اسی عمر کے آس پاس ہوتی ہیں۔ اور یہ بات مرد حضرات کے لیے بھی ہے۔ کہ لڑکے وہ بیس سے تیس سال کی عمر میں ہیں۔ انکی شادی کی آئیڈیل عمر بھی 25 ہی ہے۔ اب لڑکے بھی شادی میں تیس کی عمر تک جانے لگے ہیں۔