Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Shadi Ke Baad Pehle Teen Saal

Shadi Ke Baad Pehle Teen Saal

شادی کے بعد پہلے تین سال

شادی کے بعد بیاہ کر آنے والی بہو پر اکثر گھروں میں بے شمار پابندیاں لگتی ہیں۔ جیسا کہ اپنی مرضی کے کپڑے جوتے نہیں پہننے، شاپنگ کرنے خود نہیں جانا، میکے جانا ہے تو ساس سے پوچھ کر اس کی اجازت سے جانا، خاوند کوئی کھانے کی چیز اس کی پسند کی نہیں لا کر دے سکتا، میکے جائے تو اس کا بیگ یا شاپر مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ کیا لیکر جا رہی ہے، وہ باہر کبھی کھانا یا آئس کریم کھانے نہیں جا سکتی۔

خاوند سے سارے پیسے اس کی ماں لے لیتی اور بیوی اپنی ساس سے خرچ لے، اس سے پیسوں کا حساب لیا جاتا، وہ کھانا پکائے گی تو سسرال کے حساب سے مصالحے ڈال کر، چاہے خود بھوکی سو جائے وغیرہ، ان سب پابندیوں کا اطلاق عمومًا ساس یا گھر میں موجود لڑکے کی بہنیں اور خصوصاً اگر اس سے بڑی بہنیں ہوں وہ کر رہی ہوتیں ہیں۔ خاوند یا سسر کو اکثریت کیسز میں ان سب پابندیوں سے اپنی تئیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

وہ بس ماں کی نافرمانی اور ناراضگی کے سبب اپنی والدہ کو غلط اور برا سلوک کرنے پر بھی کچھ نہیں کہتا۔ بیوی شکوے کرتی کہ دیکھیں آپ کی امی اور بہنیں زیادتی کرتی ہیں۔ وہ پیار پوچا ڈال کر اسے ٹال دیتا ہے۔ پھر کئی گھروں میں ساس تو حد سے زیادہ ہر معاملے میں انوالو ہو کر بہو کا جینا حرام کر دیتی ہے اور بہو ماں باپ کی عزت کی خاطر وہاں اپنی زندگی کے دن پورے کرتی رہتی ہے اور یوں وہ اپنے ہی گھر کسی قیدی کی طرح زندگی کو انجوائے کرنے کے دنوں میں گھٹ گھٹ کر مردہ سی زندگی گزار دیتی ہے۔

ہماری ماؤں اور دادیوں کے دور ایسے ہی تھے۔ خاوند کو پتا بھی ہوتا ہے کہ ذیادتی ہو رہی ہے مگر چپ رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں۔ اس نے اپنی دادی کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا ہوتا ہے اور اپنے باپ کو خاموش رہ کر ماں کی بے عزتی ہوتے دیکھا ہوتا ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ شاید ہر گھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ دوسری وجہ خاوند کا پیسے نہ کمانا ہے۔ وہ اپنی ماں اور بہنوں کو ٹھیک ٹھاک پیسے دے تو وہ اس کی بیوی کو ہتھیلیوں پر اٹھا لیں۔

تیسری وجہ جس کا کوئی علاج ہی نہیں۔ خاوند کا بزدل اور بے غیرت ہونا ہے۔ لفظ تھوڑا سخت ہے برداشت کیجیے گا۔ یقین مانیے بے غیرت ہی ہوتے ہیں جو بیوی پر سر عام ہونے والی زیادتیوں اور مظالم پر تماشائی بنے ہوتے ہیں اور بیوی کو ماں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوتا ہے۔ ایسا کم ہی گھروں میں ہوتا ہے مگر جہاں ہوتا ہے وہاں اخیر ہی ہوتا ہے۔ لڑکیاں خاوند کے نیوٹرل رہنے پر خود کشی کر لیتی یا طلاق لے لیتی ہیں مگر وہ ماں کا لاڈلا ماں کے ہر ظلم کو ڈیفنڈ کر رہا ہوتا ہے۔

شمامہ یعنی آپ کی بھابھی کو اوپر بیان کردہ پابندیوں میں سے چند ایک کا شادی کے بعد کچھ دیر سامنا رہا۔ اس کی ایک نہیں دو ساسیں ہیں۔ یعنی اپنی ساس اور پھر دادی ساس، کہ کپڑے چھوٹے پہنتی ہو دوپٹہ ایسے کیوں لیتی ہو، باہر کھانا نہیں کھانے جانا، برقعہ پہنا کرو (وہ اور میں چادر لینے کے ہی حق میں ہیں) اور اس سے ملتی جلتی کچھ باتیں۔ وہ پہلے پہل تو مجھے بتاتی نہیں تھی۔ جب تھوڑا تھوڑا بتانا شروع کیا تو میں نے امی اور دادی سے بغیر لگی لپٹی لفظوں کے ہیر پھیر کے بغیر بات کی۔

کہ آپ کا دور اور لائف اسٹائل مختلف تھا۔ اب چیزیں بدل چکی ہیں۔ آپ اپنی بہو کو کھانے پینے، آنے جانے، پہننے میں مکمل آزادی دیں۔ وہ جو بھی پہنتی ہے مجھے پسند ہے۔ جب مجھے اعتراض نہیں تو پلیز آپ بھی نہ روکا ٹوکی کیا کریں اور مہینے میں ایک بار ہم کھانا کھانے جائیں گے آپ بھی ساتھ چلیں، نہیں جانا تو پلیز اگنور کریں۔ اور کبھی تو ان کو بتائے بنا ہی جہاں جانا ہوتا ہو آتے ہیں۔ ہر بات ماں یا بیوی کو بتائیں تو گھر نہیں بستے۔

چند باتوں پر اپنا مؤقف سختی سے بھی پیش کرنا پڑا۔ کچھ باتوں پر شمامہ کو بھی سمجھایا اور بس ایک ہی بار کہا، الحمدللہ اب سب فریقین آپس میں بھی خوش ہیں اور ایک ہی چھت تلے بڑی محبت سے رہ رہے ہیں۔ میری ایک چھوٹی بہن بھی ہے۔ اسے بالکل اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں بات کرے۔ موسٹلی بھابھی کے خلاف ماں باپ کے کان نندیں ہی بھر رہی ہوتیں ہیں۔

ہمارے گھر میں پہلے دادا پھر ابو اور اب میں کبھی بھی گھریلو سیاست اور طاقت و بالا دستی کے حصول کی جنگ میں نیوٹرل نہیں رہے۔ دادا جی اللہ جنت نصیب کرے دادی کو بہت سختی سے پیش آتے تھے جب وہ کوئی ایسی بات کہتیں جو ان کو نہیں کہنی چاہیے تھی، ابو بھی ایسے ہی ہیں اور میں نے اپنے باپ، دادا کو جو کرتے دیکھا ہے وہی کرتا ہوں۔ میں کافی سخت طبیعت کا انسان ہوں۔ خصوصاً کسی بے قصور پر کوئی ذیادتی یا غلط بات نہیں برداشت کرتا کسی بھی صورت۔ وہ کرنے والی میری ماں ہی کیوں نہ ہو۔

جن گھروں میں خواتین آل ان آل ہوتی ہیں وہاں اکثریت میں تباہی ہی ہوتی ہے۔ مرد بھیگی بلی بنے ہوتے اور ماں کے ساتھ بیٹیاں ملکر بہو کی زندگی عذاب کیے ہوتی ہیں۔ ایسی مائیں اپنی بیٹیوں کے گھر بھی حد سے زیادہ مداخلت کر کے تباہ کر دیتی ہیں۔ ان کو طلاق دلوا کر بٹھا لیتی اور پھر مظلوم بن کر لڑکے والوں پر طرح طرح کے ساری عمر الزامات لگاتی رہتی ہیں۔ ایسے گھروں کے مردوں کو پتا ہوتا ہے کہ ہماری ماں یا بہنیں زیادتی کر رہی ہیں۔ بس میں ان کو کچھ نہ ہی کہوں اب۔

کچھ گھروں میں سسرال کی طرف سے بہو کو بیٹی ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ آٹے میں نمک برابر ہیں۔ اکثریت گھروں میں شادی کے شروع کے چند سال بڑا تناؤ رہتا ہے۔ کشیدگی طول اسی صورت اختیار کرتی ہے جب گھر کے مرد غلط کو غلط نہیں کہتے۔ غلط یہ نہ سمجھیں ساس ہی ہوتی ہے۔ بیوی بھی ساس کے خلاف چالیں چل سکتی ہے۔ جھوٹے ٹسوے بہا کر سچی ہو جاتی ہیں۔ اس کو بھی اس کی حد میں رکھنا اور دونوں فریقین کی بات سن کر انصاف کرنا بھی مرد کا کام ہے۔

یار سو باتوں کی ایک بات ہے۔ ہمیں پتا ہوتا ہے غلط ہماری ماں ہے یا بیوی۔ جو غلط ہے اسے غلط کہیں اور اس کی اصلاح کریں۔ پیار اور سختی دونوں طرح سے۔ شادی کے بعد پہلے تین سال بڑے اہم ہوتے ہیں۔ ان میں خاوند کو انصاف کرنا اور کروانا آ جائے تو باقی زندگی بڑی سکھی گزرتی ہے۔ ان سالوں میں جو فریق (بیوی یا ساس) بھی حاوی ہو گیا وہ دوسرے کو ہمیشہ تنگ کرے گا۔ اپنی دھاک سی بٹھا لے گا اور اجارہ داری کسی صورت ختم نہ ہونے دے گا۔

لڑکیاں خاوند کو لے کر سائیڈ پر ہونے کے چکر میں ساری ہر گز نہیں ہوتیں۔ سسرال کے رویے دیکھ کر ہی وہ ایسا سوچتی ہیں۔ کچھ ایسا سوچتی بھی ہیں اور ایسا کرتی بھی ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ایسی صورت میں جب ساتھ رہنا ممکن ہی نہ رہے جیسے تیسے بھی زیور بیچ کر، قرض لیکر گھر ڈبل سٹوری کر کے بیوی کو والدین سے جزوی یا مکمل الگ کر دیا جائے۔ مگر بیٹا اپنے والدین سے دور نہ جائے۔ وہ جیسے بھی اس کے والدین ہیں ان کی خدمت کرے۔ بیوی کو ان کے اور والدین کو بیوی کے ظم و ستم سہنے کے لیے گھر کو ہر روز جہنم نہ بنائے رکھے۔

Check Also

Bluesky

By Mubashir Ali Zaidi