1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Sardar Hafiz

Sardar Hafiz

سردار حافظ

مکہ شہر کے قریب ایک بستی میں بسنے والے چند دیہاتی نوجوانوں کے درمیان ایک پہاڑ عبور کرنے کا مقابلہ منعقد ہوا۔ پہاڑ بلکل چٹیل اور سنگلاخ تھا۔ جس پر چڑھنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ گرمی کا موسم تھا اور دوران سفر پاؤں میں جوتے بھی نہیں پہننے تھے کہ گرمی کے موسم میں پتھر گرم ہو کر کوئلہ بنے ہوتے ہیں۔ خالی ہاتھ جانا تھا کوئی رسی کوئی سہارا استعمال نہیں کرنا تھا۔ پانی کی کوئی بوتل بھی ساتھ نہیں لے کر جانی تھی اور مغرب سے عشا کے درمیان دوسری جانب موجود وادی میں اترنا ضروری تھا۔ جہاں سب سے پہلے کامیابی سے پہنچنے والے کا انعام اس کا منتظر ہوگا۔ انعام میں نہ صرف قبیلے کی سرداری تھی بلکہ جس نے قبیلے کا سردار بننا تھا اس کی شادی مکہ کے ایک بڑے سردار کی بیٹی سے ہونی تھی جو ایک شاعرہ تھی۔ جس کی آواز، ذہانت اور حسن کے چرچے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔

پہاڑ پر چڑھنے کی ایک آخری شرط یہ تھی کہ مقابلہ میں حصہ لینے والوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جائے گی۔ اور ان کو بند آنکھوں سے پہاڑ پر چڑھنا اور اترنا ہے۔ یہ سب نوجوان اس پہاڑ پر کئی دفعہ چڑھ چکے تھے اور اسکی دوسری جانب اتر بھی چکے تھے۔ مگر ایک حافظ نامی نوجوان ایسا تھا جو کبھی اس پہاڑ پر نہیں چڑھا تھا۔ وہ نوجوان پیدائشی طور پر بصارت سے محروم تھا۔ وہ بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے پہاڑ کے دامن میں کھڑا تھا۔ سب اس پر ہنس رہے تھے کہ جو گلیوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے وہ پہاڑ کیسے عبور کرے گا۔ آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے۔ مگر اس کا استاد بہت خوش تھا وہ اپنے شاگرد کو ایسا سرداروں والا لباس پہنا کر لایا تھا جیسے وہ ہی اس مقابلے کا فاتح ہو۔ سورج کی پہلی لو پھوٹی تو سب کو ایک آواز سے حکم دیا گیا کہ پہاڑ انکے سامنے ہیں سفر شروع کریں۔

سب تیزی تیزی چلنے لگے۔ حافظ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا جیسے وہ اپنی عام روٹین میں مکہ کی گلیوں میں چلا کرتا تھا۔ اس نے ابھی چند میٹر ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ کچھ نوجوان پہاڑ پر کافی اوپر پہنچ چکے تھے۔ جوں جوں دھوپ نکلنا شروع ہوئی پتھر گرم ہونا شروع ہوئے تو کچھ نوجوان بیٹھنے لگے کچھ واپس اترنے لگے۔ کچھ نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں کھول دیں۔ محو سفر تھا تو وہی نابینا حافظ۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو نوجوان پہنچ گئے ایک حافظ اور دوسرا ایک مشہور پہلوان۔ جب اترائی شروع ہوئے تو سارا ہجوم وادی میں جمع ہوگیا کہ پہلے کون اترتا ہے۔ جلدی میں اترنے کی کوشش میں پہلوان کا پاؤں پھسلا اور قلابازیاں کھاتا ہوا نیچے آگیا۔ اسکا نا صرف ایک بازو ٹوٹا بلکہ آنکھ پر بھی گہری چوٹ آئی۔ حافظ مغرب کی اذان سے چند لمحے قبل بخیر و عافیت پہاڑ سے نیچے اتر آیا۔

خوشی کے شادیانے بجنے لگے اور حافظ کی ماں کے گرد ساری بستی کی خواتین جمع ہوگئیں۔ وہ اب قبیلے کے سردار کی ماں تھی۔ ایک ایسا سردار جو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر سب دیکھنے والوں کے فیصلے اس کی زبان سے ہونے تھے۔

جو نوجوان اس حافظ کے ساتھ مقابلے میں شریک تھے انہوں نے پوچھا کہ سردار آپ تو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ آپ نے یہ ناممکن کام کیسے کر دکھایا؟ سردار نے جواب دیا کہ میرے ساتھ مقابلے میں بھی آپ سب وقتی طور پر نہ دیکھ سکنے کی معذوری کے ساتھ ہی تھے۔ مگر آپ لوگ آج نابینا ہوئے تھے۔ اور آپ کو معلوم تھا چند گھنٹوں کی بات ہے پٹی کھل جائے گی اور آپ پھر سے دنیا دیکھ سکیں گے۔ جبکہ میں نے تو اپنی ماں کا چہرہ بھی نہیں آج تک نہیں دیکھا اپنا استاد نہیں دیکھا خود اپنا وجود نہیں دیکھا۔ میرے لیے آج کا دن ایک فیصلہ کن دن تھا کہ میں آج کے بعد نابینا تو ہوں گا مگر سردار بن کر عام نہیں رہوں گا۔ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی مجھے میرے استاد نے مبارک باد دے دی تھی کہ فاتح تم ہو۔

زندگی ہر کسی کو ایک موقع ضرور دیتی ہے کہ وہ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں خود لکھ سکے۔ اور آج میرا دن تھا۔ میرا استاد مجھے اس دن کے لیے تیار کر رہا تھا کہ تم سے کوئی بڑا کام لیا جائے گا۔ تمہیں ایک مشکل سے گزارا جائے گا۔ ایک جان لیوا امتحان سے گزر کر تم وہ پاؤ گے جو قابل فخر ہوگا۔ مجھے میرا استاد ایک چھڑی کی مدد سے اکیلا چلنے اور کسی کا ہاتھ نہ پکڑنے کا سبق دیتا تھا۔ کہ زندگی میں کوئی وقت آتا ہے سب ساتھ چھوٹ جاتے ہیں۔ اس وقت میں اکیلے ہی جینا ہوتا ہے کہ جب جینا بہت مشکل ہو۔ اگر بچپن سے میری ایسی تربیت نہ ہوئی ہوتی تو میں آج یہ پہاڑ کبھی عبور نہ کر پاتا۔ مقابلے میں شریک نوجوان جو چند لمحے پہلے حافظ کے متعلق برا گمان کر رہے تھے۔ سب اس کے گرد جمع ہو کر اسکا ماتھا چومنے لگے۔ اسکے ہاتھوں کا بوسہ لینے لگے اور اس کی شان میں گیت گانے لگے۔ جن کا مفہوم یہ تھا کہ یہ امتحان ضروری تھا۔ جس میں سب کو مساوی موقع ملا۔ سب سے بہتر نوجوان سردار بنا اور یہ ہماری صدیوں پرانی تاریخ میں سب سے دانا سردار ہے۔

آج ایک چھوٹے بچے کو وہیل چیئر دینے میں اور میری اہلیہ انکے گھر گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس جیسی چار اور وہیل چیئرز مالدیپ میں مقیم میرے ایک عزیز دوست نے تحفہ کی تھیں کہ چھوٹے بچوں کو دینی ہیں۔ یہ چھوٹا بچہ چارپائی سے وہیل چیئر پر آگیا ہے۔ کمرے سے صحن میں آیا ہے۔ صحن سے گلی اور گلی سے باہر کی دنیا میں جائے گا۔ یہ سی پی چائلڈ ہے مگر ذہانت و فطانت میں دیگر بچوں کی نسبت بہت آگے ہے۔ اسے وہی سبق دے دیا ہے جو حافظ کے استاد نے اپنے نابینا شاگرد کو دیا تھا۔ اللہ اس بچے کو آنے والی زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب کرے۔

Check Also

Aalmi Youm e Azadi e Sahafat

By Gul Bakhshalvi