Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Samea Ki Kahani

Samea Ki Kahani

سامعہ کی کہانی

شادی کے ایک سال بعد جب مجھے خوشی کی خبر ملی کہ میں اب ماں بننے والی ہوں تو اس خوشی کا متبادل کئی سال تک کوئی دوسری خوشی نہیں بن سکی۔ اس سے پہلے اور اسکے بعد ملی تمام خوشیاں ایک ساتھ تکڑی میں رکھ کر تولی ہیں وہ لمحہ ہی آج تک باعث راحت اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ سامعہ یہ بات بتاتے ہوئے خوشی کے گرتے آنسووں کی لڑی کو روک نہ پائی۔

اسکے بعد میرے بچے کی میری کوکھ میں پہلی محسوس کی جانے والی حرکت کیسا احساس تھا۔ وہ کیسی بے لوث اور ناقابل بیان محبت تھی جو اس ننھی جان کے دنیا میں آنے سے پہلے اسکی ماں کو اس سے ہوچکی تھی۔ جب معلوم ہوا کہ بیٹا ہے تو اور زیادہ خوشی ہوئی کہ ساس اور نندیں بیٹے کے متعلق ہی بات کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان میں پہلے بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ میں سوچتی تھی میرے ہاں بیٹی ہوئی تو شاید میں اپنے سسرال کی خوشی پوری نہ کر سکوں۔

اسکے بعد میرے بچے کی پیدائش کی خوشی کہ مجھے آپریشن سے ہوش آنے کے بعد جب بچہ پکڑایا گیا۔ وہ اس معصوم کا مجھے ملا ہوا پہلا لمس اور وہ روح کو چھو جانے والا احساس ایک ماں کے سوا دوسرا کون محسوس کر سکتا ہے؟ کہ میرے ہی تو جسم کا ٹکڑا تھا وہ۔ یوں لگتا تھا اس دنیا کی ساری خوشیاں مجھے مل گئی ہوں۔

پھر انتظار ہونے لگا میرا بچہ کروٹ بدلے گا۔ ٹانگوں سے سائیکل چلائے گا۔ آوازیں نکالے گا۔ بیٹھنا اور زمین پر کرالنگ کرنا شروع کرے گا۔ پھر واکر میں بیٹھے گا۔ پھر چار پائیوں کے ساتھ چلے گا۔ پھر اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر باہر جائے گا۔ پھر سائیکل چلائے گا۔ دوڑے گا بھاگے گا۔ مجھے ماما کہے گا۔ طوطے کی طرح باتیں کرے گا۔ سب کی نقلیں اتارے گا۔ فلاح کیسے کھانستا ہے فلاں کیسے دیکھتا ہے یہ سب بتائے گا۔

تین سال کا میرا بچہ ہوگیا۔ میرے لیے یہ سال تین صدیوں سے لمبے تھے۔ یہ سب خواہشیں حسرتیں بن گئیں اور ایم آر آئی، سی ٹی اسکین سے معلوم ہوا کہ میرے بچے کا دماغ مفلوج ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جو لینگوئج اور حرکات و سکنات کو کنٹرول کرتا ہے وہ زیادہ متاثر ہے۔ وہ بس سمائل کرتا اسکی آنکھیں اور چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ میری زندگی بن گئی۔

اب ہم نے دوسرے بچے کی طرف آنے کا ارادہ کیا۔ ہر دوا کھا لی ہر ٹیسٹ کروا لیا ہر علاج کروا لیا مگر حمل نہ ہو سکا۔ آج دس سال بیت چکے ہیں اور میری زندگی کی جو سب سے بڑی خواہش تھی۔ وہ یہ کہ میرا جگر گوشہ بس ایک بار مجھے ماں کہہ کر پکار لے اور پھر ایک معجزہ ہوا۔ رات کے پچھلے پہر مجھے آواز آئی۔ امی امی امی۔۔

مجھے لگا کوئی خواب ہے۔ جاگ کر دیکھا تو کروٹ بدلے ہوئے میرا بچہ مجھے بلا رہا تھا۔ دل جیسے ہاتھوں میں آگیا ہو۔ ماں بننے کی خبر کے بعد کوئی خوشی اگر مجھے ملی تھی تو وہ اپنے بچے کی آواز سننا تھی۔ کسی کی آخری خواہش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرا بچہ مجھے ایک بار ماں کہہ کر پکار لے؟ میں نے اپنے رب سے یہ ہی دعا مانگی تھی اور میری دعا پوری ہوئی۔

ان دس سالوں میں جو اگنور ہوا۔ جو غلط ہوا۔ جو کبھی بھی نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ وہ یہ کہ میں نے اپنا آپ اپنا ایک ایک لمحہ اور سوچیں اپنے بچے کے لیے وقف کیے رکھیں اور اسکے باپ کا ہونا نہ ہونا ایک برابر کر دیا۔ وہ مجھے تسلیاں دیتا رہتا، دلاسے دیتا، میرا دل بہلاتا، مجھے تحفے لاکر دیتا، مجھے وقت دیتا، نجانے اپنے دل پر کونسے پہاڑ رکھ کر وہ کبھی نہ رویا، مجھے ہسانے کی کوششیں کرتا رہا۔ جو کمایا میرے بچے اور دوسرے بچے کی خواہش میں لگاتا رہا۔

اب اس خدا کے بندے کو دیکھ کر اسکے ساتھ کی گئی ذیادتی کو دیکھ کر میرا کلیجہ کٹتا ہے کہ میں اتنی بیوقوف اور نجانے کیا کچھ کیسے بن گئی کہ میں نے ایک خوبصورت دل کے مالک انسان کی زندگی کے دس سال ہی اسکی لائف سے ڈیلیٹ کر دیے۔ اپنے ساتھ تو جو کیا وہ کیا اسکا کیا قصور تھا۔ بچے کی بحالی اور اسکا چلنا بولنا تو ایک طرف اسے میری بھی ضرورت تھی۔ میرے وقت کی میری توجہ کی میرے لمس کی میری باتوں کی میرے ساتھ کی۔ میں بچے کا منہ دیکھتی رہتی اور وہ ہم دونوں کا۔

سپیشل بچوں کی ماؤں پر تو بہت لکھا گیا۔ انکے باپ کا کردار کم ہی زیر بحث آ پاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے لاڈلے لڑکے کیسے صبر کا پہاڑ بن جاتے ہیں۔ ہر مشکل آزمائش اور مالی تنگدستی کو جیسے بھی ہو مینیج کرتے ہیں۔ روتے نہیں اور نہ ہی شکوے کرتے ہیں اور سپیشل بچوں کی مائیں جانے انجانے میں اپنے خاوند کو کتنا اگنور کر جاتی ہیں۔ کاش کوئی اس سب کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا بروقت بتا دے کہ سپیشل بچے کی ماں اپنی ہر خوشی کا محور اپنے بچے کی بحالی ضرور بنائے۔ مگر اس میں اپنے ساتھ رہنے والے اسی بچے کے باپ کو تو اگنور نہ کرے۔ اس بچے کو کسی تربیت یافتہ اٹنڈنٹ کے پاس یا کسی قابل اعتماد رشتہ دار کے پاس چھوڑ کر کچھ گھنٹوں یا ایک دو دن کے لیے کسی صحت افزار مقام پر وقت گزارے۔ دونوں میاں بیوی اپنی باتیں کریں۔ اس بچے کے گرد اپنی پوری زندگی کا دائرہ بنا لینا اور ہر چیز اس سے ہی جوڑ لینا ایک ابنارمل سوچ ہے اور اس سوچ سے نکلنے میں کسی کو چند ماہ کسی کو چند سال اور کوئی تو شاید اپنی پوری عمر اس سوچ سے آزادی نہ حاصل کر سکتا ہو۔

سامعہ اور اسکے خاوند نے اچھالی جھیل وادی سون میں دس سال بعد چند گھنٹے پہلی بار ایک ساتھ گزارے اور انکی باتوں کا موضوع صرف محبت تھی جو وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے اپنے اپنے انداز میں کرتے چلے آئے تھے، معافیاں اور تلافیاں تھیں جو سامعہ بار بار کان پکڑ کر مانگ رہی تھی اور دونوں کی آنکھوں میں تیرتا خوشی کا پانی تھا۔ جو کسی ایک کا بھی بہہ جاتا تو دونوں ہی رو پڑتے۔ مگر جو کوئی ان کو وہاں لے کر گیا تھا اس نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ یہاں رونا نہیں صرف ہسنا اور خوش رہنا ہے۔ بچے کو وہ خود انکے آس پاس ہی گھومتے ہوئے سنبھال لے گا آپ نے صرف چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کو ایسا وقت دینا ہے جو شادی کے بعد سامعہ کے دلہن بن کر آنے سے اگلی شام تک چوبیس گھنٹوں میں خوشیوں اور چاہتوں بھرا تھا۔ ان باتوں اور یادوں کو یاد کرنا ہے جو ان چوبیس گھنٹوں میں ہوئی تھیں اور اسکے بعد آنے والے کل سے ایک نئی زندگی نئی امید اور نئی سوچ کے ساتھ شروع کرنی ہے۔ کہ زندگی جیسی بھی ہو ہم ہمیشہ شکر گزار اور خوش رہیں گے۔

Check Also

Har Doctor Khuda Dost Nahi Hota

By Gul Bakhshalvi