Samea Ki Kahani Aur Bar Waqt Faisla
سامعہ کی کہانی اور بروقت فیصلہ
طلاق کے صرف چھ ماہ بعد جب سامعہ نے دوسری شادی کی بات کی تو گھر والوں نے ہی اسے منع کر دیا کہ اتنی جلدی ایسا کام کریں گے تو لڑکے والے سوچیں گے کہ طلاق لی ہی دوسری شادی کرنے کے لیے ہے اور لڑکی کا پہلے ہی وہاں کوئی چکر چل رہا تھا اور ابھی تو سامان جہیز کا کیس چل رہا ہے۔ سامعہ نے اپنے والدین کو بتایا کہ اسے اس کے سکول سے ہی ایک کولیگ نے پرپوز کیا ہے۔ عدالت کا کیس ختم ہونے میں تو شاید کئی سال لگ جائیں اور سامان جہیز کی جو ریکوری ہونی اسکے چکر میں مجھے اپنا ذہنی سکون کس حد تک برباد کرنا ہے۔ اس صورت حال میں نفع نقصان کو کیلکویٹ کیا تو اس کیس کو فالو کرنا اور ایک لمبے عرصے تک اسکے ساتھ Engagement بنائے رکھنا ایک گھاٹے کا سودا ہے۔
رشتہ دار یا میرے سابقہ سسرال مجھے ایسا مناسب رشتہ دوبارہ تلاش کرنے میں کیا مدد کر سکتے ہیں؟ جو آج خود آگے بڑھ رہا ہے۔ سامعہ کی ماں کو لڑکے کی بابت تفصیل معلوم ہوئی تو وہ Low vision لڑکا ہے۔ یعنی اسے نظر تو آتا تھا مگر بہت تھوڑی دوری تک اور Vision کلئیر نہیں تھی۔ مگر تھا وہ پورا جینٹل مین۔ سامعہ کی ماں نے کو پہلا کمنٹ پاس کیا وہ یہ تھا کہ ایک اندھا ہی ہمارے لیے رہ گیا ہے اور ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ اس نے تمہیں کیا تعویز ڈال لیے ہیں۔ سامعہ کی خوش قسمتی کہ اس نے طلاق کے بعد کسی پروفیشنل بندے سے مدد لی تھی کہ ڈپریشن سے کیسے نکلنا ہے اور اب آگے کیسے بڑھنا ہے۔
معذوری یا طلاق ہم جیسے معاشروں میں ایک فرد کو ڈی ویلیو کرتے ہیں۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ کسی بھی فرد کو اپنی ویلیو خود طے کرنے کا موقع اور سوچ کم ہی مل پاتی ہے۔ اس کیس میں دونوں کو اپنی ویلیو معلوم تھی۔ کہ کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کرکے اب اگلی لائف شروع ہوگی۔ منیب جزوی طور پر متاثرہ بصارت لڑکے کو ایک ایسی لڑکی کا ساتھ مل رہا تھا جس کی بصارت سو فیصد ٹھیک تھی اور سامعہ کو ایک برسر روزگار ہم عمر کنوارہ لڑکا اور وہ بھی خود اپنانا چاہ رہا تھا اسکی فیملی بھی خوشی سے سامعہ کو قبول کر رہی تھی۔
منیب کو یہی بتایا گیا تھا کہ تمہاری شادی ایک نابینا یا کسی معذوری سے متاثرہ لڑکی سے ہو پائے گی۔ وہ بھلے وائٹ کین استعمال نہیں کرتا تھا مگر لکھا ہوا آنکھوں کے بہت قریب کرکے پڑھتا تھا اور سامعہ یہ دیکھ رہی تھی کہ ایک طلاق شدہ لڑکی نے پانچ دس سال سوگ منانا ہوتا ہے عدالتوں میں خواری الگ اور پھر بعد میں ایک تیس پنتیس سال کی لڑکی کے لیے جو رشتے آتے وہ اسکے باپ کی عمر کے۔ ہم عمر یا ہم پلہ جسم تک رسائی تو چاہیں گے، چھپ کر دوسری شادی وغیرہ کی آپشن بھی ہوگی مگر ڈھنگ کا رشتہ ملنا بہت مشکل ہوگا۔
اس جوڑے نے اپنی اپنی ڈومین میں ورکنگ کی اور سماجی رویے کو بدلتے ہوئے بلکل ویسی ہی شادی کرنے کا پروگرام کیا۔ جیسی شادی سامعہ کی پہلی ہوئی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا نہ صرف سامعہ کے سابقہ سسرالیوں نے بلکہ اسکے اپنے ددھیال اور ننھیال سے لوگوں نے باتیں کرنا شروع کر دیں کہ یہ شادی ہی پہلی طلاق کی وجہ بنی۔ جبکہ حقیقت اس سے بلکل مختلف تھی۔ ایک شادی شدہ لڑکی ایک جزوی طور پر نابینا لڑکے کے پیچھے کیوں اپنا گھر برباد کرے گی؟ سامعہ اور منیب نے تو شاید سامعہ کی طلاق سے پہلے ٹھیک سے بات بھی نہ کی ہو۔ منیب نے کسی تھرڈ پرسن کے ذریعے پرپوزل بھیجا اور سامعہ کی طلاق کے آٹھ ماہ بعد شادی ہوگئی۔ سامان جہیز کی واپسی کا کیس ابھی عدالت میں چل رہا ہے اور وہ پیارا کپل اپنی پہلی اولاد ایک بیٹی کے آج والدین بن گئے ہیں۔
ایک خدشہ تھا کہ منیب کیونکہ اٹھرا کی وجہ سے جزوی طور پر نابینا تھا تو اسکے بچوں میں یہ معذوری نہ ٹریول کرے۔ پہلا بچہ پیدا کرکے کسی بات کو دیکھنے کی بجائے سامعہ نے نو ماہ کسی جگہ سے اٹھرا کی دوا لے کر کھا لی اور بچی کی آنکھیں اور نظر الحمدللہ بلکل ٹھیک ہے۔ پیدائشی نابینا پن کی کچھ وجوہات میں اٹھرا بھی ہو سکتا ہے اور نابینا افراد جو اس بات کو جانتے ہیں وہ اپنی شادی کے بعد حمل ہونے کی صورت میں پہلے بچے سے ہی اٹھرا کی دوا حاملہ ماں کا کھلانا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی بیماری یا سنڈروم کی وجہ سے بصارت کا ختم ہوجانا ایک اور بات ہے۔ بہرحال اس کے متعلق میں کوشش کروں گا مستند معلومات شئیر کرتا رہوں کہ میری تو یہ فیلڈ ہے اور مجھے سوسائٹی میں بنے عجیب وغریب رویوں کو بدلنے میں اپنا عملی کردار ادا کرنا ہے۔
سامعہ نے اپنی شادی سے پہلے مجھ سے رابطہ کرکے بس اتنا پوچھا تھا کہ ہمارے بچوں میں یہ چیز ٹریول تو نہیں کرے گی اور اگر کرے گی تو اس کو روکنا کیسے ہے۔ میں نے ان کو آنکھوں کے کسی پروفیسر ڈاکٹر سے کنسلٹنسی لینے کا مشورہ دیا تھا اور سامعہ کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اگر طلاق کے بعد تم پہلے سال میں شادی نہ کر سکی یا آگے نہ بڑھ سکی تو اگلے آٹھ دس سال تمہارے میری بہن ہمدردیاں اور اپنی طلاق کی وجہ بتاتے گزر جائیں گے۔ آپشن اچھی ہے تو اللہ کا نام لے کر بسم اللہ کرو۔
یقین مانیں یہ زمانہ بڑا بے رحم ہے۔ یہاں اپنی جائز ویلیو حاصل کرنا پڑتی ہے کوئی خود سے آپ کو عزت یا ویلیو دیتا نہیں ہے اور جب آپ طلاق شدہ ہوں یا معذور ہوں تو لوگوں کی باتوں کو سننے کی بجائے اپنے راہ خود بنانے ہوتے ہیں۔ اپنی ویلیو خود طے کرنا ہوتی ہے۔ اپنے فیصلوں کو کرنے کی ہمت خود اکٹھی کرنی پڑتی ہے۔ اپنے چولہے کو خود جلانا پڑتا ہے اور سطحی سوچ کے ساتھ عقل کے پورے لوگوں کو بلکل منہ نہیں لگانا ہوتا۔