Saain Nadeem
سائیں ندیم
کیا آپ یقین کریں گے کہ اس بندے کو میں پانچ سال سے وہیل چیئر استعمال کرنے کی ترغیب دے رہا ہوں؟ مگر وہ ہم سے بلکل فری وہیل چیئر لینے کو تیار نہیں ہے۔ اپنے گاؤں سے ایسے ہی چل کر یا کسی سے لفٹ لے کر دربار پر آتا ہے۔ وہاں آئے زائرین اسے بھیک دیتے ہیں اور شام کو گھر چلا جاتا ہے۔ اس کا نام ندیم ہے۔ آپ اس سے بات کریں بلکل ٹھیک بات کرے گا۔ مگر بات کرے گا اس سے جسے یہ جانتا ہے۔ جسے نہیں جانتا اسکے آگے ہاتھ پھیلائے گا منہ سے کچھ نہ بولے گا کہ مجھے معذور سمجھ کر بھیک مل جائے۔
عقل سمجھ مجھ اور آپ سے بھی زیادہ ہے۔ مگر ہم اسے چاہ کر بھی صاف ستھرا رہنا اور وہیل چیئر استعمال کرنا نہیں سکھا سکتے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے پھر بھیک نہیں ملے گی۔ مجھے ایسے مشکل میں چلتے کوئی دیکھے گا تو ترس کھائے گا۔ اور پیسے دے گا۔ وہ مبینہ طور پر ہر روز ہماری نفسیات سے کھیل کر دیہاڑی لگاتا ہے اور اپنے حالات نہیں بدلنا چاہتا۔ اسے کئی بار دربار میں ہی کوئی کام شروع کرنے کی ترغیب دی ہے۔ مگر اس بات پر آگے سے کوئی جواب ہی نہیں۔ بلکل گونگا ہو جاتا ہے۔
آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کا بھی سپیشل بچہ سائیں ندیم کے نقش قدم پر نہ چلے تو اسکی تعلیم و تربیت کا بندوست کیجئے۔ اسے چھوٹی عمر میں کوئی واکر کوئی بریس کوئی وہیل چیئر دیجئے کہ وہ ایسے نہ چلے۔ بڑی عمر کے سپیشل بچوں اور افراد کو وہیل چیئر دیتے ہیں تو ان میں سے کئی اسے استعمال نہیں کر پاتے۔ کیونکہ وہ اسکے بغیر ہی چلنا گھسٹنا وغیرہ سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اور ہماری دی ہوئی وہیل چیئر کسی سٹور میں رکھ دیتے ہیں۔ اب ہم باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں اور جو استعمال نہ کرے اس سے واپس لے لیتے ہیں۔ بڑی عمر کے سپیشل افراد ریگولر کبھی بھی وہیل چیئر استعمال نہیں کرتے۔ جو بچپن سے سیکھ گیا۔ یا جو اسکی اہمیت اور اس پر بیٹھ کر ملنے والی عزت و وقار کو سمجھے گا وہی سیکھے گا۔ باقی سب اسے آسانی کی بجائے مصیبت سمجھیں گے اور جیسے انکی زندگی گزر رہی ہوگی ویسے ہی گذاریں گے۔
وہیل چیئر استعمال کرنا سیکھنے کی ایک عمر ہے۔ اس کے بعد اسے قبول کرنا اور چلانا بہت مشکل ہے۔ جتنی جلدی بچے کو مختلف بچہ والدین قبول کر لیں گے۔ اتنا ہی یہ بچے اور والدین کے لیے اچھا ہوگا۔ اگر اسے ٹھیک کرنے کے پیچھے ہی اپنی ساری توانائیاں لگائیں گے۔ تو خدا نخواستہ آپ کے بعد آپ کا بچہ سائیں ندیم بھی بن سکتا ہے۔
ندیم کے مرحوم ابو بھی اسے اپنی ساری عمر جہاں کوئی بتاتا تھا لے جاتے تھے کہ شاید ٹھیک ہو سکے۔ مگر اس نے کبھی بھی چل نہیں سکنا تھا۔ اس بات کو وہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آج وہ زندہ نہیں ہیں۔ مگر ندیم جیسی زندگی جی رہا ہے۔ دوبارہ زندہ ہو کر دیکھ لیں تو پھر مر جائیں۔ اور سپیشل بچوں کے والدین کو ایک ہی بات کہیں کہ ان بچوں کے علاج کے ساتھ انکی تعلیم و تربیت اور بحالی بھی کریں۔ ان بچوں کو آزادانہ زندگی گزارنا سکھائیں۔ کہ والدین کی زندگی کے بعد انکے بچے کم از کم ایسی زندگی تو نہ گزاریں۔ آپ سائیں ندیم کو ایک لاکھ روپے دیں۔ یہ گھر اپنی امی کو دیکر صبح اسی حالت میں پھر دربار کے گیٹ پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہوا ہوگا۔
آپ جو سپیشل بچوں کے والدین نہیں ہیں۔ ان بچوں پر ترس نہ کھایا کریں۔ ان سے محبت کیا کریں۔ ان کو سکول یا تعلیم کی اہمیت بتایا کریں۔ انکے والدین کا رخ ہسپتالوں آستانوں درباروں حکیموں مالشیوں سے موڑ کر کسی بھی مدرسے مسجد سکول کی طرف موڑا کریں۔ والدین کو جب یہ بات سمجھ آتی کہ بچہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ تب تک اسکی کچھ نیا سیکھنے کی عمر گزر چکی ہوتی ہے۔ اور وہاں سے والدین ڈپریشن میں جا کر بلڈ پریشر شوگر کے مریض بننا شروع ہوتے۔ جو والدین جتنی جلدی حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اپنی اور بچے کی ذہنی صحت کو اتنا ہی اچھا رہتے اور ان کے "سپیشل بچے" دنیا میں باقی رہ جانے والا کوئی نام پیدا کرتے ہیں۔