Roshni Ka Safar
روشنی کا سفر
تین سال پہلے چند دوستوں کے ساتھ مل کر انکے تعاون سے ایک چھوٹا سا پراجیکٹ شروع کیا تھا۔ جس کا نام رکھا روشنی کا سفر۔ اس پراجیکٹ کو سوشل میڈیا سے دور ہی رکھا گیا۔ مجھے اپنی زندگی میں کیے گئے اب تک کے تمام "اچھے" کاموں میں سے عزیز ہے۔ جسے میں شاید کبھی بھی ختم نہ کروں۔ ہر ماہ صرف ایک ایسے بچے کو تلاش کرنا۔ جو کسی شدید معذوری سے متاثر ہے اور اپنے کمرے یا گھر میں قید ہے۔
اس بچے کو خود ساتھ کسی قریبی شہر میں تشخیص کے لیے لے کر جانا، والدین کو جھوٹی امیدوں سے نکالنا، علاج کی کوئی آپشن موجود ہے تو اس تک رسائی کو ممکن بنانا، اسے وہیل چیئر یا بیٹھنے چلنے وغیرہ کے لیے واکر وہیل چیئر فراہم کرنا۔ اسے ایک کمرے سے باہر صحن میں لانا، پھر صحن سے گلی محلے میں اور پھر مسجد مدرسے کی طرف اس کا رخ موڑنا۔ یعنی اسکی معذوری اور لوکیشن جتنی اجازت دیتی ہو۔
کچھ دوست اپنے عزیز و اقارب یا گلی محلے گاؤں میں سے بچہ خود تلاش کرتے ہیں۔ اس پراجیکٹ میں میرا کام وقت دینا ہے۔ اخراجات فیملی یا اس بچے کے متعلق بتانے والا ڈونر افورڈ کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے میں صرف گائیڈ کر دیتا ہوں خود ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ والدین کو بس ایک راہ دکھانی ہوتی ہے۔ وہ شہر شہر علاج کے لیے جا جا کر تھک چکے ہوتے ہیں۔ اور علاج کی تو کوئی بھی آپشن ہوتی ہی نہیں۔ مگر اس بات کو قبول کرنا والدین کے لیے اتنا آسان نہیں۔
اور ہم اس بچے کو روشنی کے سفر کا مسافر بناتے ہیں۔ والدین کی کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ انکے معذوری کے متعلق غلط اعتقاد کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ان کو بچے کو قبول کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس ماہ کے کیس میں ایسے ہی ایک نوجوان کو جو مسکولر ڈسٹرافی کے ساتھ ہے۔ ہم کل گکھڑ منڈی گوجرانولہ سے لیکر لاہور مائل سٹونز ادارہ میں آئیں گے۔ جہاں اسکی موبیلٹی کے لیے الیکٹرانک وہیل چیئر یا کسی اور آپشن پر مشاورت کریں گے۔
فیملی وہیل چیئر کی رقم میں آدھا حصہ خود بھی شامل کرے گی۔ باقی انتظام ایک ڈونر کر رہے ہیں جن کے کہنے پر میں کل اس نوجوان کو لیکر لاہور جاؤں گا۔ وہ انکا بچپن کا کلاس فیلو ہے۔ جس یار کے ساتھ کھیلتے بچپن گزرا اسے چارپائی پر لاچار پڑے دیکھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے پانی کا گھونٹ بھی نہیں پی سکتا تو اس کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اللہ نے دل میں پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ ایسا دل اور جذبہ ہر کسی کو دے۔
اس سے پہلے گکھڑ منڈی جا کر اس نوجوان کا گھر گلی وغیرہ میں دیکھ آیا تھا۔ کہ اسکے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ علاج تو ممکن نہیں ہے باقی ماندہ زندگی میں جو آسانی آ سکتی اس کے لیے ممکنہ مدد فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جب اپنی پہلی کورے گاڑی لی تھی تب سے یہ کام بہت آسان ہوگیا تھا۔ آپ کو یہ بات بتانے کا مقصد واہ واہ یا تعریف بھرے کمنٹس لینا ہر گز نہیں ہے۔
آپ نے ہر ماہ نہیں اپنی زندگی میں بس ایک صرف ایک ایسے سپیشل بچے کو روشنی کے سفر کا مسافر ضرور بنانا ہے۔ اس کام پر کوئی بہت زیادہ پیسے نہیں لگتے۔ بس ٹائم لگے گا اور آپ کی تھوڑی سی توجہ اور محبت۔ اور اس کے بدلے کسی کی تو پوری زندگی بدل جائے گی۔ پچاس لاکھ کے قریب سکول جانے کی عمر کے سپیشل بچے پاکستان میں موجود ہیں۔ جن میں سے صرف 4 لاکھ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ہیں۔ باقی 46 لاکھ بچوں کو کوئی ایک فرد یا ادارہ تعلیم حاصل کرنے کا راستہ نہیں دکھا سکتا۔ یہ ہم سب کے کرنے کا کام ہے۔
تبلیغی جماعت والے دوست کہا کرتے ہیں کہ ابھی ارادہ کر لیں۔ ارادہ پر بھی نیکی ہے۔ اسباب فراہم کرنا اللہ کے ذمے ہے۔ تو کون کون ارادہ کرتا کہ جب کبھی ممکن ہوا کسی ایک سپیشل بچے کی گھر تک محدود زندگی کا دھارہ ضرور موڑنا ہے۔ اور اسے بیکار سے کارآمد شہری بنانے کی کوشش انشاءاللہ ضرور کرنی ہے۔