Rizwan Ahmed
رضوان احمد
ہر سپیشل بچے کے والدین یہ سوچتے اور چاہتے ہیں کہ ان کا جگر گوشہ انکی وفات کے بعد اس قابل ہو جائے کہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔ انکی یہ خواہش پوری ہو یا نہ ہو وہ ایک الگ بات ہے۔
پندرہ سالہ رضوان احمد کے ابو آج سے چند قبل اس بچے کو لے کر ہمارے سکول آئے اور یہی بات کی کہ سر میرا بیٹا اپنے آپ جوگا ہو جائے۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر ہے۔ یہ بچہ بمشکل چل پاتا تھا بولنے اور کسی چیز کو ہاتھوں سے پکڑنے میں شدید دشواری تھی۔ کئی بار گر کر زخمی ہوا۔ اسکی کنڈیشن کا نام سیری برل پالسی ہے۔ دونوں بازو ہاتھ اور دونوں ٹانگوں کے ساتھ چہرے کے مسلز میں کھچاو ہے۔ اس بچے کے سکول میں پہلے دن سے لے کر آج تک اس کا کلاس انچارج میں ہی ہوں۔
یہ بچہ کسی پرائویٹ سکول سے ہمارے پاس ریفر ہو کر آیا تھا۔ سپیچ تھراپی ہوتی رہی بلکہ اب بھی ہوتی ہے الحمدللہ سپیچ اسی فیصد تک کلئیر ہو چکی ہے۔ فزیو تھراپی کا ہمارے سکولوں میں کوئی سیٹ آپ نہیں ہوتا۔ مگر ہمارا ان سروس ٹیچر ٹریننگ کالج فزیکلی ہینڈی کیپ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی ٹریننگز کراتا رہتا ہے کہ محدود وسائل اور بچوں کے گھریلو سیٹ آپ میں ان کو فزیو تھراپی کی ٹریننگ ہم اساتذہ ہی دے سکیں۔ اس ضمن میں میری دو ٹریننگز ہو چکی ہے۔ الحمد للہ جو چلنے اور توازن قائم رکھنے میں دشواری تھی وہ بھی ستر فیصد تک دور ہو چکی ہے۔
دو سال قبل اس بچے کو سکول بس سے نکال کر آپ ہی میں سے کسی دوست سے کہہ کر اسے یہ والی سائیکل تحفہ کرائی تھی۔ کہ ایک تو سکول آنے جانے میں روز چار کلو میٹر سائیکل چلا کر ٹانگوں کی ورزش ہو اور دوسرا اسے آزادانہ نقل و حرکت میں کانفیڈینس آئے۔ الحمد للہ اب یہ بچہ اپنی سائیکل پر جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ اسے راہ پوچھنا اور سفر کرنا آگیا ہے۔ اس سال یہ بچہ آٹھویں جماعت کا امتحان دینے جا رہا ہے۔ الحمدللہ اردو انگلش پنجابی نہ صرف پڑھ اور سمجھ بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ کی سپورٹ سے لکھ بھی لیتا ہے۔
میرے مالک کے فیصلوں کی مصلحتیں وہی جانتا ہے۔ رضوان احمد کے ابو چند دن قبل اچانک وفات پاگئے ہیں۔ اور یہ بچہ یتیم ہوگیا۔ پسماندگان میں بہنیں اور ایک چار سال کا بھائی ہے۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری اب اس شہزادے پر آگئی ہے۔ جسے ان شا للہ یہ بخوبی نبھائے گا۔ یہ پوسٹ کسی امدادی اپیل کے لیے ہر گز نہیں ہے۔ اگر آج ہی اسے امداد دے دی تو ساری عمر بھکاری بن کر گزارے گا۔
رضوان احمد ایک محنت کش اور خودار باپ کا قابل فخر بیٹا ہے۔ اپنے استاد کی آنکھوں کا تارا ہے اور ساری دنیا سے عزیز ہے۔ رضوان یہ چاہتا ہے کہ اپنے محلے میں سبزی کریانہ کی دوکان بنا لے۔ اسکے گھر والے چاہتے ہیں کہ وہ گندم کاٹنے والی ہارویسٹر مشین کا مکینک اور ڈرائیور بن جائے۔ اسکے ابو گھر میں مکئی کے سٹے ابال کر راکھ میں دبا کر موٹر بائیک کے پیچھے بنی منی ٹرالی میں بیچا کرتے تھے۔ وہ کام اس لیے نہیں کر سکتا کہ ہاتھ بہت ذیادہ کانپتے ہیں۔ سٹہ چھیلا اور اس پر نمک وغیرہ نہیں لگ سکتا۔
آپ کوئی مشورہ دیں کہ اس بچے کو کس کام میں ڈالا جائے۔ کوشش تو پوری ہے کہ تعلیم کا سلسلہ نہ ٹوٹے اور پرائیویٹ تیاری کے ساتھ میٹرک کے امتحان دے۔ باقی معاشی خود مختاری کا سفر بھی شروع کرنا ابھی ضروری ہے۔ کہ کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔
مجھے امید نہیں یقین ہے اس ہیرے کو جس بھی فیلڈ میں ڈالیں گے وہ ضرور کامیاب ہوگا۔ بس تھوڑے پیسوں اور اسکی معذوری کے پیش نظر فیلڈ کا انتخاب کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ کہ اس کا کسی غلط فیلڈ میں جا کر وقت ضائع نہ ہو۔