Ram Katha
رام کتھا
کم و بیش ہم سب کی زندگی میں کوئی حادثہ کوئی سانحہ عمر کے کسی حصے میں ضرور ہوتا ہے۔ کوئی محرومی یا نا انصافی سب کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا کرنے والے بعض اوقات وہ ہوتے ہیں جن کے لیے ہم نے ساری دنیا سے ٹکرایا ہوتا ہے۔ ان کی خاطر بہت کچھ ٹھکرایا ہوتا ہے۔ جب وہ ہی روح میں زہر آلود خنجر گھونپ دیں، دھوکہ کا دغا دے جائیں، مشکل میں نہ صرف ساتھ چھوڑ جائیں بلکہ ہمارے دشمنوں سے مل جائیں، فریب کریں منافقت کریں تو یوں لگتا جیسے زندگی ہی ختم ہوگئی ہو۔
یہاں سے بعد کی زندگی کو نیا رخ دینا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ مرد و خواتین دونوں کی اکثریت اس ایک لمحے یا واقعے سے باقی کی عمر نہیں نکل پاتی۔ ایک مثال دیتا ہوں کہ جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کا جوان سالا اکلوتا بیٹا اکلوتی اولاد جب وفات پا گیا تو چترا نے باقی کی ساری عمر نہ گانا گایا نہ وہ کسی فنکشن میں گئی۔ جبکہ اسی کا خاوند جگجیت سنگھ اسی درد کو لے کر غزل کا بادشاہ بن گیا۔ وہ درد اسکی آواز میں آیا اور پوری دنیا میں اسکے کانسرٹ منعقد ہونے لگے۔
خواتین کی اکثریت، میں غلط ہوں تو میری تصحیح کریں، ایسے حادثات کے بعد جینا چھوڑ دیتی ہیں۔ ایک ظالم مرد انکی زندگی میں آتا ہے چاہے وہ باپ ہو بھائی ہو خاوند ہو وہ ساری عمر کے مردوں کو اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ماضی سے باہر نہیں نکل پاتیں اور ان کا ذہن وقت کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ماضی کی اس زیادتی یا نا انصافی کا قصوروار مرد ذات کو قرار دینے لگتی ہیں اور ان کے نزدیک سب سے بدلہ لینا جائز ہو جاتا ہے۔ ایسا ایک دم سے نہیں ہوجاتا۔ ایک عمر لگتی ہے اس حالت تک پہنچنے میں۔ ایسی خواتین ہوں یا مرد ہوں۔ مرد ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو ایک عورت کی غلطی کا قصوروار پوری دنیا میں موجود عورت ذات کو ٹھہرایں۔ بہرحال کوئی بھی ہو اسے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
مسئلہ یہاں آتا ہے کہ مرض جب شروع ہوا تھا تب علاج ممکن تھا۔ اب جب نس نس میں بدلہ نفرت انتقام کی سوچ رچ بس گئی ہو اور لگے ہی نہ کہ میں ابنارمل ہوں۔ تو علاج کیسے ہو۔ ایسی صورت میں ایسے افراد سے کنارہ کشی ہی بہتر ہوا کرتی ہے کہ انہوں نے جانے انجانے میں اپنی تو زندگی جہنم کر ہی رکھی ہے ہماری تو نہ کریں۔ ایسے لوگوں سے کسی کی خوشی نہیں دیکھی جاتی کہ ہم دکھی ہیں تو یہ کیوں ہنسے یا خوش ہو۔ ایسے لوگ جب ایک کمیونٹی بنتے ہیں اور زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔
ساری رام کتھا کا مقصد یہ ہے کہ حادثات جسمانی ہوں یا روحانی ان کے بعد اپنے پیاروں کو تنہا نہ چھوڑیں۔ وہ جو مرضی کہیں زور زبردستی کرکے یا پیار محبت سے ان کو نارمل زندگی کی طرف واپس لایا جائے۔ وہ کسی نئے رشتے میں نہیں آنا چاہتے نہ آئیں مگر فارغ رہ کر اپنی سوچوں کو شیطان کی آماجگاہ نہ بننے دیں۔ کسی کمیونٹی سروس میں کسی سوشل ورک میں کسی مذہبی خدمت میں یا کچھ بھی کرنے لگ جائیں۔ اپنی زندگی کو ایک مقصد دیں اور باقی کی عمر اس مقصد کی تکمیل میں گزاریں۔