Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do
پرامن احتجاج کا حق تو دو
پرامن احتجاج کسی بھی قوم کا ایک آئینی اور بنیادی حق ہے۔ ایک طرف ایک ایسا خاندان ہے اور ان سے جڑے ہوئے انکے وفادار لوگ ہیں جن کا پاکستان سے باہر کسی ملک میں گھر سے باہر نکلنا مکمل بند ہو چکا ہے۔ زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ایک فرد واحد ہے، ڈیڑھ سال سے قید میں بند اور اسکی ایک کال پر پورا ملک بند ہوچکا ہے۔ اسکی فوٹو تک شئیر کرنے پر پابندئی عائد ہے۔ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسکی خاطر نکل رہے ہیں۔
تھانے اس وقت ان لوگوں سے بھر چکے ہیں جنہوں نے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا کہ ہر علاقے اور گاؤں شہر سے سرکردہ کارکنان کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے یا چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہے، انٹرنیٹ سے جڑے تمام کاروبار ٹھپ پڑے ہیں اور لوگ ایسی گھٹیا ترین انٹرنیٹ سروس اور پابندیوں ڈر خوف دھمکیوں اور غیر قانونی اٹھائے جانے، غائب کر دیے جانے کے ڈر سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔
میں اپنی بات کروں؟ میرے سگے ماموں جان کی زندگی بھر کی کمائی سے خریدے ہوئے حافظ آباد شہر میں موجود پلاٹ پر ایک گروپ نے ناجائز قبضہ کر لیا ہوا ہے۔ ڈی پی او، ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور نجانے کس کس بندے سے میں نہیں ملا؟ رجسڑی انتقال، پٹواری کی رپورٹ کہ یہ وہی پلاٹ ہے جس کے ڈاکومنٹس ہیں۔ جو کچھ مانگا گیا وہ سب دیا، انکوائریاں ہوئیں سب کچھ کلئیر ہوگیا کہ ناجائز قبضہ ہے۔ مگر ہمارے پلاٹ کا قبضہ ہمیں پولیس نہیں دلوا رہی۔ کھلی کچہریاں سب بکواس اور مداری تماشا لگانے کے سٹنٹ ہیں۔ ایسے ہی ہزاروں میرے جیسے لوگ اس محکمے اور دیگر انصاف فراہم کرنے والے حکومتی محکموں سے بد دل ہو چکے ہیں اور اپنی، عزت، جان و مال، اپنے بچوں کے مستقبل کو بلکل محفوظ نہیں سمجھتے۔
فوجی جوان اور عوام ہر روز دہشتگروں کے ہاتھوں مر رہی ہے۔ گدھوں پر لاد کر مرے ہوئے فوجیوں کی سر کٹی لاشیں لائی جا رہی ہیں۔ فرقہ واریت کے فسادات شروع ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں چوریاں ڈاکے اور کرائم کی ریشو کس حد تک بڑھ چکی ہے اور اس سب کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار پی ٹی آئی کو کچلنے اور فارم 47 کی حکومت کو بچانے میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔
محکمہ پولیس کی تو عوام کی نظروں میں جو عزت اور ساکھ ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب تو کوئی ان کو گاڑی میں لفٹ تک نہیں دے رہا کہ ڈیوٹی پر جاکر انہوں نے کسی عام شہری کا جائز کام رشوت کے بغیر نہیں کرنا، ہمارے ہی کسی بھائی پر جھوٹا پرچہ دینا ہے اور زیادتی کرنی ہے اور ایسا کرنے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہے ورنہ ایک سپاہی کی کیا حیثیت ہے کہ وہ عوامی نفرت مول لے۔ وہ بھی تو اسی ملک کا شہری ہے۔ اسے ڈیوٹی کے بعد بھی یہاں رہنا ہے اور اپنے ضمیر کا سامنا کرنا ہے۔
فوج کو محافظ سمجھ کر جو خاکی وردی کی عزت اور احترام ایک عام پاکستانی میں پایا جاتا تھا۔ وہ اب مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ دہشتگردی کے ناسور کو فوج تبھی ختم کر سکتی ہے جب اسے عوامی اعتماد، حمایت اور بیک آپ سپورٹ حاصل ہو۔ کیا فوج کو نظر نہیں آرہا کہ لوگ فوج سے کتنا متنفر ہو چکے ہیں؟ ن لیگ والے باجوہ سے نفرت کرتے تھے اور پی ٹی آئی ملک کے ان حالات کا ذمہ دار جنرل عاصم منیر کو سمجھتی ہے۔ عمران خان کئی بار اسکا براہ راست نام لے چکا ہے۔ اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر بھی شاید کسی فوجی جرنل کو نامزد کرکے دینا چاہتا تھا۔
بدنام تو پورا محکمہ ہو رہا ہے۔ ساکھ اور وقار مسلسل ڈیمج ہو رہا ہے۔ میرا ایک دوست جو حاضر سروس فوجی ہے بتا رہا تھا کہ یار میں اپنا تعارف نہیں کرواتا۔ عزت و احترام یا کوئی فیور ملنے کی بجائے یا تو لوگ ڈرنے لگتے ہیں یا وہ سرد مہری سے بات کرنے لگتے ہیں۔ میری طرح کوئی بھی محب وطن پاکستانی اپنی فوج سے بدظن اور بدگمان نہیں ہونا چاہتا مگر جب وہ خود ہی اس بات کا خیال نہیں رکھیں گے تو کوئی دوسرا کیا کرے۔
کسے نہیں نظر آرہا کہ یہ پکڑ دھکڑ، یہ گرفتاریاں، یہ دھونس اور طاقت کا غیر آئینی استعمال، یہ دھمکیاں، یہ راستوں کا بند کرنا، یہ ہاسٹل خالی کروانا، یہ چادر و چار دیواری کو پامال کرنا، فیوچر تباہ کرنے اور کریمینل ریکارڈ بنانے کا خوف دلانا۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر نکلنے دیا جائے تو سب دیکھ لیں گے آٹھ فروری کی طرح کیسے لوگ نکلتے ہیں اور کیونکہ سب ہی دھڑے اور طاقتیں آٹھ فروری کو دیکھ چکے ہیں کہ ہماری اوقات عوام کی نظر میں کیا ہے تو کیسے کھلی اجازت دی جا سکتی ہے کہ پرامن احتجاج ہو؟
یہ سب کچھ آخر کب تک چلے گا؟ ایران، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی مثالوں سے ہم کیوں سبق نہیں لے رہے؟ عوامی غیظ و غصہ ایک حد تک ہی دبایا جا سکتا ہے۔ خدا کے لیے بس کر دو اب اور رحم کرو اس ملک پر، اس عوام پر اس سے پہلے کہ یہ نقصان بڑھتا ہی چلا جائے اور ناقابل تلافی ہوجائے، ایک وقت آئے ایسا کرنے والوں کی اولادیں یہاں رہتے ہوئے بھی عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گی، بلکل ویسے ہی جیسے یہ لوگ اپنی زندگی میں اب پاکستان سے باہر عوامی سوالات اور غصے کا سامنا نہیں کر پا رہے۔