Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Phajja Qasai

Phajja Qasai

پھاجی قصائی

آپریشن تھیٹر کے باہر میں اور ایک لڑکا بیٹھے تھے۔ ہم دونوں کی بیویوں کو نرسیں اندر لے گئی تھیں۔ اور بے ہوش کرنے کے سپیشلٹ ڈاکٹر کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس ڈاکٹر نے کسی اور ہسپتال سے آنا تھا۔ آپریشن تھیٹر سے پہلے ایک کمرہ تھا جہاں مریض کے کپڑے وغیرہ بدلے جاتے یا اسے آپریشن کے لیے تیار کیا جاتا۔ وہاں الٹرا ساؤنڈ مشین بھی تھی۔ سرجن ڈاکٹر آپریشن سے پہلے آخری الٹرا ساؤنڈ وہاں کرتا تھا۔ میں جب اندر گیا تو میری اہلیہ کا ایک ڈاکٹر الٹرا ساؤنڈ کر رہی تھی۔ اور نرسوں کو بتا رہی تھی کہ پلاسنٹا بچے کے گلے میں لپٹا ہوا ہے۔ لائیکر ختم ہےایچ بی نائن ہے۔ بلڈ پریشر شوگر نہیں ہے۔ سیکنڈ آپریشن ہے۔ اور ایسی ہی کچھ دیگر انفارمیشن جو ضروری تھی وہ ایک چارٹ پر لکھی جا رہی تھی۔

ایک نرس نےمجھے دیکھ کر کہا کہ بھائی آپ باہر ہی بیٹھیں۔ لواحقین کو یہاں اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ خاتون ڈاکٹر بولی ان کو اجازت ہے یہ بھی ڈاکٹر ہیں آنے دو۔ اب بھی ہم اسی ہسپتال تھے جہاں ضوریز کی باری تھی۔

دوسرے بھائی کی اہلیہ کو مین آپریشن تھیٹر میں لیجایا جا چکا تھا اور بیہوشی والا ڈاکٹر بھی اندر چلا گیا۔ میں باہر آگیا۔ اس بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ٹیچر ہوں۔ اس نے بتایا وہ قصاب کا کام کرتا ہے اور اس کا نام فیاض ہے۔ گاؤں میں اسے پھاجی قصائی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ونیکے تارڈ کے قریب ان کا گاؤں تھا۔ یہ انکی پہلی اولاد تھی۔ فیاض کی امی اور بہنیں بھی ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ سب بڑے خوش تھے کہ ان کے گھر خوشی آ رہی ہے۔ فیاض کہنے لگا کہ ایک بات سوچی ہوئی ہے اللہ نے بیٹا دیا تو اسے قصائی نہیں بنانا۔ سات نسلوں سے ہم یہی کام کرتے آ رہے ہیں۔ گندہ کام ہے منڈیوں میں جا کر مویشی خریدنا پھر انکے ساتھ مویشی بننا گندے کپڑے پہننا انکا گوبر پیشاب اپنے اوپر کرانا اور ہر روز چیر پھاڑ لہو کے فوارے۔ بس بڑا کر لیا یہ کام۔ اب بچوں کو پڑھائیں گے اور کسی صاف ستھرے کام میں ڈالیں گے۔

بیٹا ہوا تو دل میں ارادہ کر رکھا ہے اسے جج بنانا ہے۔ کہ تیس سال سے ہمارا جگہ کا تنازع چوہدریوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ سارا گاؤں جانتا ہے گواہیاں ہوئی ہیں قسم قرآن ہوا ہے کہ وہ جگہ ہماری ہے۔ مگر ان کا زور ہے انکے تعلقات ہیں۔ ہم کمی چھوٹی قوم کے ہیں تو ہماری کہاں شنوائی ہوگی۔ دادا پیشیاں بھگتتے وفات پاگئے اب ابا جی عدالت جاتے ہیں اور پھر ہم جائیں گے۔ ان لوگوں نے ہماری جگہ پر میرج ہال بنا لیا ہے عدالت نے ہمیں سٹے تک نہیں دیا۔ انصاف کہاں ملے گا۔ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا جج بنے اور چھوٹی قوموں کو ہر گاؤں میں رہنے والے ایسے فرعونوں سے انصاف دلائے۔ یہاں انصاف نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھار دل کرتا ہے یہ ملک ہی چھوڑ دوں۔

ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سینئر نرس بچہ لے کر تھیٹر سے نکلی۔ آسیہ مریض کے ساتھ کون ہے؟ اس نے آواز لگائی۔ فیاض کی اماں آگے بڑھی۔ نرس نے بتایا بیٹا ہوا ہے اور فیاض جوتا اتار کر کعبہ رخ ہوا اور سجدے میں گر گیا۔ ان لوگوں نے جینڈر معلوم نہیں کیا تھا کہ یہ راز ہے تو راز ہی رہے۔ فیاض کی امی نے فرط محبت سے نرس کا ماتھا چوم لیا۔ اسے مبارکباد میں ایک ہزار کا نوٹ دیا۔ اس نے کہا ہم چار لوگ ہیں تو ایک ہزار اور دیں۔ فیاض نے دو ہزار اور دے دیا۔

بیٹا ماشا اللہ جیسے چاند کا ٹکڑا تھا۔ انتہائی صحت مند وزن تین کلو سے بھی ذیادہ ہوگا۔ میں نے چہرہ دیکھا تو وہ بچہ ڈاؤن سنڈروم تھا۔ بڑے واضح خدوخال کے ساتھ۔ یہ بات ان کو نہ خود معلوم تھی نہ ہی نرس نے بتائی۔ میں بھی خاموش رہا کہ بچے یا بچی کا پہلا حق ہے اسکی پیدائش پر دل سے خوش ہوا جائے۔ اس معصوم کو پہلا حق تو ملے۔ فیاض نے سب کو فون کرکے بتانا شروع کیا کہ بیٹا ہوا ہے۔ اور اپنے بھائی کو کہا کہ دس کلو مٹھائی لے کر آؤ ہسپتال۔ ہم لوگ کمرہ نمبر تیرہ میں تھے اور انکے پاس گیارہ نمبر کمرہ تھا۔

تھوڑی دیر بعد فیاض کی اہلیہ کو بھی اسٹریچر پر ڈال کر لایا گیا۔ وہ مکمل بے ہوش تھی۔ جنرل انستھیزیا دیا گیا تھا۔ سب کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ ہر کوئی بچے کی چمیاں لے رہا تھا۔ اسے پکڑ کر دونوں گالوں سے میں نے بھی چوما اور ایک ہزار روپے اسکی پھپھو کو پکڑائے کہ بچے کو پہلی بار دیکھا ہے۔ ہر کوئی صدقے واری جا رہا تھا۔

میں نہیں چاہتا تھا کہ پھاجی کو آج کے دن یہ معلوم ہو کہ اسکا بیٹا جج نہیں بن سکتا۔ اور خاندان کے یہ قہقہے سسکیوں میں بدل جائیں۔ ماں جو اپنی جان کی بازی لگا کر اس ننھی جان کو دنیا میں لائی ہے۔ وہ وسوسوں کا شکار ہوجائے کہ میرے بچے کا مستقبل کیسا ہوگا۔ اسکا بچپن لڑکپن اور جوانی کیسی ہوگی۔ اور وہ شادی بھی کر سکنے کے قابل ہوگا یا نہیں۔ میں نے پھاجی کو نہیں بتایا کہ اسکا بیٹا ڈاؤن سنڈروم ہے۔ رات کو ڈاکٹر وزٹ پر آئی تو اسے میں نے کہا کہ آپ نے مریض آسیہ کا بچہ ڈیلیور کرایا ہے ناں؟ وہ ڈاؤن سنڈروم ہے آپ نے ان کو بتایا کیوں نہیں؟ تو اس نے بھی یہی کہا کہ یہ سب سادہ لوح لوگ ہیں۔ پہلا بچہ ہے اور بیٹا ہے۔ رونے پیٹنے لگ جائیں گے۔ بچے کی ماں کو بچے کی معذوری کا قصور وار کہیں گے اور اسکی کئیر نہیں کریں گے۔ ان کو وقت گزرنے کے ساتھ خود ہی معلوم ہوجائے گا۔ ان کو آج اس بات سے واقفیت دینا مناسب نہیں ہے۔

میں نے پوچھا اس کیس میں اس بچے کی معذوری کی وجہ آپ کے خیال میں کیا ہے؟ ڈاکٹر بولی ماں کی عمر 36 سال ہے۔ اور یہ انکی پہلی اولاد ہے۔ ماں کی عمر پہلے بچے کے وقت 35 سال سے بڑھ جائے تو کروموسومل ابنارمیلٹیز کا رسک کچھ حد تک بڑھ جاتا ہے۔ سو میں سے تین چار بچے کروموسومل ابنارمل پیدا ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کیس میں ماں کی عمر کا ذیادہ ہونا بچے میں ڈاؤن سنڈروم کی وجہ بنا ہے۔ اور ڈاؤن سنڈروم بھی اکیس نمبر کروموسوم کی ہر خلیے میں دو کی بجائے تین کاپیاں ہونے کا نام ہے۔

ڈاکٹر چلی گئی تو فیاض نے ہمارے کمرے پر دستک دے کر گلاب جامن اور رس گلوں کی ایک پلیٹ دی۔ اور کہا کہ ماسٹر صاحب افطاری آج مٹھائی سے کیجئے گا۔ آپ کو بیٹی کی پیدائش پر ایک بار پھر مبارک ہو۔ وہ خدا کا بندہ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا اسکے تو پاؤں زمیں پر نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں بچے کو لمبی اور خوشیوں بھری عمر کی دعا دی اور اپنے کمرے میں مٹھائی لے کر واپس آگیا۔

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed