Partner Se Khayanat
پارٹنر سے خیانت
سماعت سے محروم افراد کے کیسز میں ان کی ترجمانی کے لیے اکثر عدالت جانا پڑتا ہے۔ کورٹ کے تقریباً سارے ہی ججز دوست بن چکے ہیں۔ سب کے پاس ہی ریگولر آنا جانا رہتا ہے۔ فیملی کورٹ کے جج صاحب جو میرے فیس بک فرینڈ بھی ہیں، سے چند دن پہلے پوچھا کہ سر مجھے بتائیں کس ایک ایشو پر لکھوں؟ انہوں نے کہا خطیب صاحب شک اور شادی کے بعد اپنے پارٹنر سے خیانت کے موضوع پر لکھیں۔ یہ چیز گھروں کے گھر برباد کر رہی ہے۔
موبائل فون میں میسجز اور تصاویر وغیرہ دیکھ لی جاتی ہیں جو نہیں دیکھی جانی چاہئیں، پھر برداشت نہیں ہوتا کہ اس نے خیانت کیوں کی۔ شادی کے فوراً بعد طلاق و خلع کے بیشمار کیسز کی بنیاد شک بنتی ہے۔ مرد شادی کے بعد کہیں اور انوالو ہو جاتے ہیں یا پہلے ہی جہاں انوالو ہوتے اس چیز کو شادی ہونے پر کلوز نہیں کر پاتے اور چوری پکڑی جاتی ہے۔ بیوی رولا ڈال دیتی ہے میں لٹی گئی برباد ہو گئی۔
ایسے حالات میں بیوی کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں کا جائزہ لے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اپنا احتساب کرے۔ محبت و کئیر کی ڈوز بڑھا دے۔ خاوند کی غلطی کو چھپائے نہ کہ اس کا اعلان کر دے۔ اسے معاف کرے۔ قوی امید ہے وہ شرمسار ہو کر پیچھے ہٹ جائے گا۔ جبکہ وہ اس کے برعکس معاملہ بگاڑ کر اپنے خاوند سے دور ہونا شروع ہو جاتی ہے، اسے بدنام کرتی ہے اور کئی کیسز میں اس کی ریپوٹیشن اس کے اور اپنے گھر والوں میں اتنی زیادہ ڈیمج کر دیتی ہے کہ وہ اسے طلاق دے دیتا ہے۔
اور ایسا ہی مرد بھی کرتے ہیں۔ چھوٹی سی بات کو پکڑ کر غیرت کا مسئلہ بنا لیتے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں ایسا ہونا ہی نہیں چاہیے مگر ایسا ہوجاتا ہے۔ شروع سے ہوتا آیا ہے اب موبائل فونز کی وجہ سے یہ مسئلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جب ایسا دونوں فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی ایسا ہو جائے تو اسے ہینڈل کرنے کی تربیت بالکل نہیں ہے۔ برداشت بالکل نہیں ہے۔
اکثریت کیسز میں لڑکی فوراً گھر چھوڑ دیتی ہے، میکے بیٹھ جاتی ہے اور معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپس میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے طلاق تک چلے جاتے اور کئی کیسز میں وجہ شک ہی ہوتی ہے۔ یہاں کورٹ میں مزید جھوٹ بول کر خلع دائر کر دی جاتی ہے یا خاوند آ کر طلاق کا نوٹس بھیج دیتا ہے۔ بیوی الزام لگاتی ہے کہ وہ خرچ نہیں دیتا، مارتا ہے، ظلم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ وکیلوں نے پہلے ہی لکھ رکھا ہوتا ہے بس اوپر نام بدلنا ہوتا ہے۔
جج صاحب کے مطابق کاش باہر والی یہ بات سمجھ جائیں کہ وہ گھر والی کبھی نہیں بن سکیں گی اور گھر والی بھی سمجھیں کہ باہر والی گھر نہیں آسکے گی۔ یہ چار دن کی چاندنی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ محبت سے اس مسئلے کو حل کیا جائے ناں کی نفرت اور غصے سے۔ اس بات پر گھر برباد کرنا مناسب نہیں۔ جہاں اس کے بعد بیاہ ہو گا وہاں بھی ایسا ہو گیا تو؟ اور اب تو لڑکیاں بھی شادی کے بعد افئیرز میں مبتلا ہونے لگی ہیں ورنہ وہ شادی ہونے پر اپنے سب عشق کلوز کر دیتی تھیں۔
بہرحال مردوں کی طرف سے یہ چیز زیادہ ہے لڑکیوں کی طرف سے کم ہے۔ اس چیز کو صبر و تحمل سے ڈیل کیا جانا چاہیے۔ نہ کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے کردار کی سر عام گھر میں یا عدالت آ کر دھجیاں اڑا کر یہ گمان رکھیں کہ ہم اب خوش رہ سکیں گے۔ اچھا سبق سکھایا ہے۔ ایسا ہونے پر تعلق ختم نہ بھی ہوا اس میں وہ چاشنی نہیں رہے گی جو اس سے پہلے تھی۔
جھک جانے والے، صبر کرنے والے، جلد بازی کی بجائے ٹائم دینے والے اور معاف کر دینے والے، اپنا احتساب کرنے والے ہی اس مسئلے سے نکل پاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے اپنے پارٹنر کو اس چیز سے نکال لیتے ہیں۔