Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Out Of The Box Sochen

Out Of The Box Sochen

آؤٹ آف دا باکس سوچیں

پاکستان کے کسی بھی صوبے کا ایک سرکاری سکول کا روایتی ٹیچر نیشنل بنک کے سوا کسی بنک میں اپنا اکاؤنٹ نہیں کھلواتا۔ اپنے اکاؤنٹ میں زیادہ پیسے نہیں رکھتا اور سیلری کے سوا کوئی اور ٹرانزیکشن نہیں کرتا کہ مجھ سے پوچھ گچھ ہوگی۔ کبھی کسی سے ایسی پوچھ گچھ ہوئی بھی ہے؟

امتحانات، پیپر مارکنگ، مردم شماری، الیکشن ڈیوٹی اور اوپن یونیورسٹی سی اسائنمٹس حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے کہ کچھ ایکسٹرا انکم آسکے اور یہ سب کچھ کرکے دیکھا ہے ملتا کچھ بھی نہیں سوائے ذلالت کے۔

میرے اپنے سکول کے زمانے میں ہمارے سائنس ٹیچر ہمیں زبردستی سکول کے ٹائم کے بعد ٹیویشن پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔ آج سمجھ آیا انکی تنخواہ ہی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ سائنس مضامین پریکٹکل کے نمبر لگوانے کی چند سو رشوت سے کیا بن جاتا ہے آپ کا؟ سکول کے اساتذہ بچوں سے پیسے اکٹھے کرتے ہیں کہ انکا کھانا پکانا ہے۔ در فٹے منہ ایسی لیچڑ سوچ کا کہ ایک کولیگ کسی اور سکول سے آپ کا مہمان بن کر آیا ہوا ہے چند دن آپ اسے کھانا بھی نہیں دے سکتے گھر سے دو روٹیاں اور سالن کی کٹوری؟ یہ پیسے بھی سکول کے بچے ہی جمع کرکے دیں۔ یہ کتنا گرا ہوا اور نیچ سا لیول ہے؟

کوئی بھی کام کرے تو ڈرتا رہے گا۔ حتی کہ سکول میں پھل دار پودے لگانے سے ڈرے گا کہ ان سے اترے ہوئے پھل کا آڈٹ ہوگا۔ ایک سادہ پیپر پر اسکے خلاف لکھی گئی جھوٹی درخواست اسکے لیے نجانے کتنی مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور وہ اس درخواست سے بچنے کے لیے اپنا آپ مار کر خود کو دنیا سے کاٹ کر ایک گمشدہ سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہ یہ نوکری نہ رہی تو میرا کیا ہوگا۔

یار پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ مگر ایک استاد کی ایسی زندگی مجھے تو سمجھ نہیں آتی یا ہمارے ہاں استاد کے رول کو بنا ہی ایسا دیا گیا ہوا ہے کہ یہ تمہاری لائف ہے، یہ تمہارا سرکل ہے، یہ تمہاری آمدن ہے اور اس سے باہر کا سوچنا بھی مت۔ اپنے ٹیچر دوستوں کو چھوٹی چھوٹی بچتیں کرتے، چند سو روپے بچاتے دیکھتا تھا تو میرا دل بھر آتا تھا۔ آنکھوں میں پانی تیر جاتا تھا کہ یار اس طبقے کو شاہ دولے کا چوہا کس نے بنا دیا ہوا ہے؟ یہ آخر آؤٹ آف دا باکس کیوں نہیں سوچتے؟ اگر یہ خود ایسے ہیں تو جو اگلی نسل انکے ہاتھ میں ہے ان کا کیا مستقبل ہوگا انکے پاس کیسا ویژن ہوگا؟

کئی اساتذہ بہت اچھی لائف گزار رہے ہیں۔ متوازن اور خوشحال۔ بس اپنے فارغ وقت کا اچھا استعمال کرکے۔ مگر انکی تعداد بہت ہی قلیل ہے۔

آپ کچھ اور کرنے جوگے نہیں ہیں تو ٹیچنگ ہی کر لیں مگر کسی اور ملک جا کر کر لیں۔ ایک اچھی اور پرسکون زندگی کیا ان کا حق نہیں ہے؟ ان کو تو اس لائف اسٹائل سے جیسے کسی نے باندھ رکھا ہے۔ ان سے پہلے والے ان کو اپنے جیسا بنا کر خود ریٹائر ہو جاتے ہیں اور یہ انکے خلیفہ بن کر اسی گھن چکر میں جینا شروع کر دیتے ہیں۔

ابھی پنجاب حکومت اپنے سکول پرائیوٹ کرنے جا رہی ہے۔ تو اساتذہ پریشان ہیں ہمارا کیا بنے گا؟

عمان میں پاکستان سے صرف دو تین گھنٹے دور ایک قابل اور ایم فل کیے ہوئے سپیشل ایجوکیشن استاد کی تنخواہ کسی اچھے اور برانڈڈ سکول میں ایک ہزار عمانی ریال ہے۔ سوا سات لاکھ روپے ماہانہ۔ بات صرف پیسوں کی نہیں ہے وہاں سکولوں میں نہ تو اساتذہ کے لیے کوئی گروتھ ہے اور نہ ہی بچوں کے لیے ایسا نصاب ہے جو عصر حاضر کی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔

یہاں عمان میں سرکاری ہے یا پرائیویٹ اپنی جاب کے بعد جو مرضی کریں جائز ذرائع سے جو کچھ مرضی کرکے لاکھوں نہیں کروڑوں اربوں روپے کمائیں کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔ یہاں پانچ فیصد VAT ٹیکس ہے وہ بس ادا کرتے رہیں اور اپنی من چاہی زندگی گزاریں۔ یہاں سو فیصد عمانی سرکاری ملازم پارٹ ٹائم کوئی اور کام یا بزنس کرتے ہیں اور ہمارے ہاں جی سرکاری ملازم کاروبار نہیں کر سکتا۔ کوئی بیچارہ کوشش بھی کرے تو اسے ڈرا دیا جاتا ہے کہ تمہیں جاب سے نکال دیا جائے کرنا بھی تو کچھ چھپ کر کرو۔

Check Also

Garam Pani Ki Jhooti Kahani

By Mojahid Mirza