Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Oman Mein Special Bache, Maain Aur Khadmain

Oman Mein Special Bache, Maain Aur Khadmain

عمان میں سپیشل بچے، مائیں اور خادمائیں

کسی بھی نوعیت کے کچھ مسائل کسی سرحد یا سماج سے باہر نکل کر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتے۔ کچھ رسوم اور جذبات کسی دوسری جگہ کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھ رہے ہوتے۔ پاکستان میں سپیشل بچوں کو سنبھالنا عمومی طور پر پچانوے فیصد انکی مائیں ہی سر انجام دیتی ہیں۔ جس کی قیمت ان کو اپنی سوشل لائف اور فیملی میل ملاپ سے کٹ جانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایسا ان کیسز میں جہاں بچے 24/7 نگرانی اور سایے کی مانند ساتھ مانگتے ہیں۔ آٹزم لیول دو اور تین اسکی ایک مثال سمجھیں اور بھی اسکی کئی مثالیں ہیں کہ بچہ کوئی حرکت ہی کرنے کے قابل نہیں تو اسکے پاس کسی کا ہونا از حد ضروری ہے اور وہ ڈیوٹی ماں ہی سر انجام دیتی ہے۔ وہ گھر کے سب کام بھی خود کر رہی ہوتی ہے اور کئی کیسز میں تو وہ ورکنگ خاتون بھی ہوتی ہے۔ کمانا، گھر کا کام کرنا، بچے کے سب کام کرنا اور ایک ربوٹ بنے رہنا۔

عمان میں اب تک اپنے قیام کے دوران کئی سپیشل بچوں کے والدین سے ملاقات ہوئی، چند ایک سپیشل ایجوکیشن ادارے وزٹ کیے اور اس مسئلے سمیت دیگر اور بھی کئی مسائل پر متعلقین سے مفصل بات ہوئی۔ یہاں ستر سے اسی فیصد ماؤں کی ڈیوٹی اپنے ایسے سپیشل بچے کا سایہ بنے رہنا ہر گز نہیں ہے جو 24/7 نگرانی اور ساتھ مانگتے ہیں۔ یہ کام انکے گھر رہنے والی انڈین، فلپینی، برمی خادمہ کر رہی ہے۔ جو چوبیس گھنٹے اس گھر کے ایک فرد کی مانند وہیں رہتی ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ماں کا لگاؤ یا دھیان اس بچے کی طرف نہیں ہے۔ ماں اپنے بچے کو کپڑے پہناتی ہے، کھانا کھلاتی ہے اسکو وقت دیتی ہے۔ مگر وہ ایسا نہ بھی کرے اور بچے کو گھر چھوڑ کر ایک دو تین دن بلکہ ایک سے دو ہفتے کسی انٹرنیشنل ٹوور پر بھی چلی جائے تو اس بچے کو ویسی ہی کئیر خادمہ مہیا کر رہی ہوتی ہے۔

مائیں کلچرل فیسٹول، مالز، پارٹیز اور دیگر رشتہ داروں کے ہاں بن سنور کر جاتی ہیں۔ ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہمارا سپیشل بچہ نجانے کیا کر رہا ہوگا۔ اس نے کوئی نقصان نہ کر دیا/ لیا ہو۔ وہ تو میرے بغیر رہتا ہی نہیں ہے۔ وہ عموماََ ایک ایسی ماں کی مانند زندگی گزار رہی ہیں کہ انکا کوئی سپیشل بچہ ہے ہی نہیں۔ وہ کسی صدمے افسوس اور پریشانی کی کیفیت میں ہی نہیں ہیں۔ وہ اپنے اس بچے سے اتنا ہی پیار کرتی ہیں جتنا دوسرے بچوں سے۔ مگر ان کو معلوم ہے اس بچے کی آنے والی زندگی کیسی ہے۔ ان کو بڑی تفصیل سے سب کچھ بتا دیا گیا ہوا ہے۔

وہ ہر ایرے غیرے کی بات سن کر کبھی کہیں اور کبھی کہیں نہیں دوڑ پڑتیں۔ یہاں فری مشورے دینے کا بھی رواج نہیں ہے۔ یہاں سپیشل بچے کو دیکھ کر دکھ اور افسوس کرنے کا بھی رواج نہیں ہے اور یہاں یہ بھی کوئی بندہ توقع نہیں کرتا کہ ایک ماں کا ایک دو یا تین سپیشل بچے ہیں تو اسکی زندگی اور اسکا رہن سہن اس قرب اور تکلیف کا اظہار کرتی دکھائی دے۔ وہ خوش ہوگی پارٹیز میں جائے گی تو لوگ کہیں گے معذور بچوں کی ماں ہے اور اسکے فیشن تو دیکھو۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ مالی وسائل تو ایک طرف ہماری سوچ سمجھ اور معاشرتی اقدار اور سوچنے کے انداز ہم نہیں بلکہ کوئی اور طے کرتا ہے۔ ہم جو بن جاتے ہیں وہ ہم ہوتے نہیں بس ہم ویسا نظر آنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم سپیشل بچوں کے والدین ہیں تو ہم سے لوگ اظہار ہمدردی اور افسوس ہی کریں گے اور ہم نے بھی ویسا ہی دکھی سا منہ بنائے رکھنا ہے اور دعائیں کرتے رہنا ہے کہ یہ آزمائش کب حل ہوگی۔ اب ایسا ہر گھر میں بھی نہیں ہے۔ کچھ لوگ افسوس کرنے اور مشورے دینے والوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور خوش رہتے ہوئے ویسی ہی لائف جیتے ہیں جیسی وہ جینا چاہتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ مالی مشکلات کا شکار تو اکثریت ہے۔ ظاہر ہے وسائل ہوں تو بہت سی مشکلیں پیسہ حل کر دیتا ہے۔ مگر میں ایک نہیں سینکڑوں ایسی ماؤں کو بھی ملا یا ان سے بات ہوئی ہے جو اپنے سپیشل بچے کو کسی خادمہ یا خادم کے سپرد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب اسکی بھی کئی وجوہات ہیں۔

لوگ بنک بیلنس اور بڑے گھر بنا کر امیر تو ہوجاتے ہیں مگر دل غریب ہی رہتے ہیں۔ سوچ کمینی ہی رہتی ہے۔ آٹھ دس ہزار میں کوئی نو عمر بچہ یا بچی ملازم رکھ لینا اس سے توقع کرنا وہ آپ کے جوان آٹسٹک بچے / بچی کی مار بھی کھائے، وہ اسکے منہ پر تھوکے، اس پر تشدد کرے اور اگر وہ ناسمجھ اسکو روک ہی لے تو کہنا اس نے ہمارے بچے کا موڈ خراب کر دیا ہے۔ اب ہمارا بچہ کھانا نہیں کھا رہا۔ یہ سب آنکھوں دیکھا ہے۔ مطلب پیسے ہوتے بھی اپنے بچے پر لگانے کی اوقات نہیں ہوتی۔ جن کے پاس ہوں نہ یا جو اس بات کو قبول نہ کریں وہ ایک الگ بات ہے۔

حل تو یہ تھا کہ مناسب اجرت کے عوض ایک ایسا مرد یا خاتون مستقل ملازم رکھی جاتی۔ جو ہر وقت اس بچے کے ساتھ رہے۔ گھر کے باقی بھی کام کاج کرے۔ جس کو پہلے اس بچے کو سنبھالنے کی باقاعدہ تعلیم دلوائی جائے اور یہ کتنا مشکل کام ہے اس کا معاوضہ بھی اتنا ہی دیا جائے۔ یہ دلی امیری اور ظرف خال ہی دیکھنے کو ملا۔ جبکہ یہاں خادمہ یا خادم کو ری ہیبلی ٹیشن سنٹر سے تعلیم دلوائی جاتی ہے اور اسے بہت اچھی تنخواہ دی جاتی ہے۔

موضوع لمبا ہے۔ اس پر پھر کچھ اور لکھوں گا۔ آج کے دن کے لیے اتنا ہی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari