Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Nineties Ke Ashiq

Nineties Ke Ashiq

نائنٹیز کے عاشق

میں نہیں جانتا آج کل کے نوجوان میٹرک یا انٹر کلاسز میں کس ذہنی سطح کے ساتھ آتے ہیں یا پڑھائی کے علاوہ فری اوقات میں کیا سوچتے اور کرتے ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے جب میں خود جوان تھا تو عمر کے اس پیریڈ میں نوجوانوں میں تین طرح کی سوچ پائی جاتی تھی۔ میٹرک کے بعد جو مل سکتی ہیں معمولی سی سرکاری ملازمت تلاش کر لو (جیسے پولیس فوج وغیرہ میں سپاہی بھرتی ہوجانا یا درجہ چہارم کی ملازمت) اور باقی کی ساری زندگی ضائع کر دو۔

دوسرے نمبر پر عاشق آتے تھے۔ ہمسائی یا کسی گلی محلے گاؤں کی ہم عمر لڑکی یا کزن سے پیار ہوگیا اور ساری توانائیاں اظہار محبت، خطوط لکھنے اور محبوب کو سوچنے اسے چھت پر چڑھ کر یا اسکی گلی سے گزر کر دیکھنے میں ضائع ہو جاتیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والے وہ ہوتے جن کو دیکھا دیکھی میٹرک میں سائنس رکھوا دی جاتی اور وہ سائنس کو سمجھنے کی بجائے فزکس بائیو کیمسٹری کو رٹے لگا کر یاد کرتے رہتے۔ سالانہ امتحانی پریکٹیکل نگران کو رشوت دے کر فل بٹا فل نمبروں سے پاس کر لیا جاتا تھا۔ اور ایف ایس سی میں فیل یا اتنے کم نمبروں میں پاس جو فیل سے بھی برے۔ یا غلط فیلڈ میں ٹرینڈ کو دیکھ کر بچے کو پڑھنے کے لیے ڈال دو۔

خیر آج میں ان تین اقسام میں سے دوسری قسم 90s کے نوجوان عاشقوں پر بات کرنے لگا ہوں کہ کس طرح وہ اپنا قیمتی ترین وقت برباد کرتے تھے۔ رب سببی ہی عشق کے سمندر سے پار لگ جانے والی ایک کامیاب شخصیت کو سولہ سال کی عمر میں زندگی میں پہلی بار ایک لڑکی اچھی لگتی ہے۔ وہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے لڑکوں اور لڑکیوں میں مخالف جنس کی کشش اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ تب رواج یہ تھا کہ پہل لڑکا ہی کرے۔ مگر آفیشل اقرار سے پہلے لڑکی پازیٹیو فریکوئنسی پر وائبز ضرور بھیجتی تھی کہ مجھے بھی تم اچھے لگتے ہو۔

وہ نوجوان اب دن رات سوچنے لگتا ہے کہ اظہار محبت ایسا ہو کہ کسی اور نے نہ کیا ہو۔ اور مخالف پارٹی خوشی سے وفات پانے کے قریب چلی جائے۔ یا کم از کم آنکھوں میں خوشی کے آنسو تو ضرور امڈ آئیں۔ کامن پریکٹس خط لکھنے یا وی آئی پی قسم کی محبت میں ڈائری لکھ کر دینے کا رواج تھا۔ وہ مروجہ پریکٹس سے اوپر الٹرا پرو میکس لیول کی کوئی چیز چاہ رہا تھا۔ اسے لگتا تھا اسکی بندی جیسا پیارا اور حسین و جمیل تو دنیا کیا جنت کی حوروں میں بھی کوئی نہیں۔ تو ایک کاغذ کا ٹکڑا اظہار محبت میں اسے دینا محبوب اور محبت دونوں کی توہین ہے۔ اور یہ کام محبوب کے شایان شان نہیں۔ ہر روز وہ پانچ نمازیں پڑھتا (سارے نفل اور غیر مؤکدہ سنتیں ملا کر) اور اللہ سے رو رو کر دعا کرتا کہ مجھے میری محبت مل جائے۔ اور ایک دن میں پانچ ہندی فلمیں بھی دیکھتا کہ اظہار محبت کا کوئی منفرد طریقہ تلاش کر سکے۔

پھر ایک دن اسکے اپنے ذہن میں ایک خیال آیا کہ وہ ایک واک مین کیسٹ پلئیر خریدے گا۔ ایک کیسٹ میں دس عدد ایسے گانے ریکارڈ کرائے گا جو اسکے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوں۔ ساتھ ہیڈ فون دے گا کہ یہ کیسٹ میری محبت کا اظہار ہے۔ اسکے ابو باہر کے ملک رہتے تھے اسنے ان کو فون کیا کہ سب سے اچھا اور سائز میں چھوٹا کیسٹ پلئیر اسے بھیجیں۔ اس دور میں باہر کے ملک کیسٹ ریکارڈ کرکے بھیجنے کا بھی رواج تھا۔ اسکے والد صاحب نے سونی کمپنی کا یہ والا واک مین کیسٹ پلئیر خرید کر بھیجا۔

Disco کمپنی کی کیسٹ بڑی مشہور تھی کہ اسکا فیتا نہیں ٹوٹتا تھا۔ ایک بلکل خالی کیسٹ خریدی۔ اور اپنے شہر کے سب سے معیاری کیسٹ ریکارڈنگ سنٹر پہنچ گیا۔ اب جس دوکان پر وہ پہنچا دوکاندار بھی "لگی والا" تھا۔ اسنے یہ گانا لگایا ہوا تھا "میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھ دے، تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے" بار بار یہی گانا چل رہا تھا۔ نوجوان نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو دوکاندار نے بتایا اسنے کیسٹ کی دونوں سائیڈز میں یہی ایک گانا ریکارڈ کیا ہوا ہے اور دو پچھلے دو سال سے بس یہی ایک گانا سنتا ہے۔ اور اپنے محبوب کی آمد کا انتظار کر رہا ہے۔

جب نوجوان نے اس سے اپنے عشق کی داستان اور محبوب کی اداؤں کا تذکرہ کیا تو وہ بڑا جذباتی ہوگیا۔ کہ وہ گانے بھی بلکل فری ریکارڈ کرکے دے گا اور دعا بھی کرے گا۔ باہمی صلاح مشورے اور بڑے غور و فکرکے بعد جو گانے منتخب کیے گیے وہ یہ تھے۔

1۔ پہلی پہلی بار محبت کی ہے۔ کچھ نہ سمجھ میں آئے میں کیا کروں

2۔ راہ میں ان سے ملاقات ہوگئی۔ جس سے ڈرتے تھے وہی بات ہوگئی

3۔ تجھے نہ دیکھوں تو چین مجھے آتا نہیں ہے۔

4۔ ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا

5۔ زندگی بن گئے ہو تم

6۔ میرا دل بھی کتنا پاگل ہے۔ یہ پیار تو تم سے کرتا ہے۔

7۔ کتنی حسرت ہے ہمیں تم سے دل لگانے کی

8۔ کتنا پیارا ہے یہ چہرہ جس پہ ہم مرتے ہیں

9۔ تیرے نام ہم نے کیا ہے جیون اپنا سارا صنم

10۔ بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم (میل ورژن)

شہر کے مشہور پنسل آرٹسٹ سے محبوب کا سکیچ کیسٹ کے سفید کور پر بنوایا گیا جہاں عموماً ہیرو ہیروئن کی تصویر لگی ہوتی تھی۔ محبوبہ کی تصویر اسکو بتائیے اور معلوم ہوئے بغیر سکیچ کے لیے کیسے حاصل کی گئی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس آرٹسٹ سے ہی دوسری سائیڈ پر خوشخطی کے ساتھ گانوں کے نام لکھوائے گئے۔ اور ایک عدد رف خط کو از سر نو لکھوایا گیا۔ خط میں صرف اتنا لکھا تھا کہ آپ کو پہلی نظر دیکھ کر دل و جان سے آخری سانس تک آپکا ہوں۔ بے آواز الفاظ میرے جذبات کے ترجمان نہیں ہوسکتے لہذا ان گیتوں کو میرے الفاظ سمجھ کر چودہویں کے چاند کی رات چاند کی روشنی میں اکیلے بیٹھ کر سننا ہے۔ خط لکھوانے کے لیے سرخ روشنائی اور ٹک والے قلم کا استعمال کیا گیا۔

اب مرحلہ آیا کیسٹ کو ٹیپ میں ڈال کر توشیبا کے سیل ڈال کر خط کے ساتھ پیک کرنے کا۔ بچوں کے جوتوں والا ڈبہ نہیں ہوتا چھوٹا سا؟ پیکنگ کے لیے وہ استعمال کیا گیا۔ مگر اس میں بڑی اعلی قسم کی روئی اور سفید کبوتر کے پر رکھے گئے۔ ان دونوں چیزوں پر گلاب کی پتیاں رکھی گئیں اور الگ سے امپورٹڈ پرفیوم کی آدھی شیشی بھی خالی کی گئی۔ کہ جب تحفہ کھولا جائے وہ کمرہ خوشبو سے بھر جائے۔

منتیں مان کر اظہار محبت کا یہ قیمتی باکس بحفاظت پہنچا دیا گیا۔ ایسی ورکنگ کے بعد کئے گئے اظہار محبت پر اگلے بندے کے پاس انکار کی کوئی گنجائش بچتی ہے؟ اور وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ جواب میں ایک ہفتے بعد ایک شوخ سرخ رنگ کی ڈائری آئی۔ جس میں بہت ساری باتیں تھیں، اشعار تھے، شکریہ تھا، اور سب سے بڑھ کر "ہاں" بھی تھی۔ کہ یہ محبت یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہے۔

بس پھر کیا تھا دن رات محبوب کے خیال اور خطوط کی آمد و رفت کا سلسلہ۔ عین جوانی کے آٹھ دس سال تسلی سے دونوں نے برباد کئے اور اس دور میں ایسا کرنا بڑا عام تھا۔ لگ بھگ ہر تیسرا چوتھا نوجوان اس کیٹگری میں تھا۔ اور اپنے مستقبل کو انہی بیوقوفانہ چکروں میں ضائع کر رہے تھے۔ لڑکے ایسا کر رہے تھے تو اتنی ہی تعداد میں لڑکیاں بھی تو انکے ساتھ شامل ہی تھیں۔

یہ وہ عمر ہے جس میں بچہ جو کچھ بھی کرنا چاہے کچھ بھی بننا چاہے وہ بن سکتا ہے۔ مگر یہ سالی عاشقی آکر سب کچھ برباد کر دیتی ہے۔ کسی کا ہاتھ کا دیا کام آجائے اور وہ حادثاتی طور پر اپنی شخصیت کے مطابق دھکے شکے کھا کر بریک اپس کے بعد پروفیشنل تعلیم بھی حاصل کرلے تو اسکی خوش قسمتی ہے۔ ورنہ جس عمر میں کسی کام کی مہارت حاصل کرنا تھی یا خوابوں کی تکمیل کرنا تھی اس عمر میں مسئلے ہی نئے بنے ہوتے ہیں۔

میٹرک کلاس اور انٹر کلاس کے میل اور فی میل سٹوڈنٹس کے ساتھ اس موضوع پر اساتذہ اور والدین کو کھل کر بات کرنی چاہئیے۔ اور کوئی لیکچر دینے کی بجائے ان کو انکے لیول پر آکر گائیڈ کریں کہ کالج کی لائف میں آپ نے اپنا خرچ خود اٹھانے کے قابل بننا ہے۔ اور اگر یونیورسٹی جاتے ہیں تو کما کر سیونگ شروع کر دینی ہے۔ آپ لڑکا ہیں یا لڑکی ماسٹرز کے بعد اپنی کمائی سے شادی کر لینی ہے۔ نہ کہ جاب کی تلاش آپ بی ایس یا ماسٹرز کے بعد شروع کریں اور پھر پیسے کما کر گھر بنائیں اور رشتہ تلاش کرنے کے وقت تک آپ انکل اور آنٹی بن چکے ہوں۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari