Neki Kar Aur Shar Se Bach
نیکی کر اور شر سے بچ
جب ابو سعودیہ تھے اور میں سٹوڈنٹ تھا۔ تو میرے پاس بہت پیسے ہوا کرتے تھے۔ ابو نے لاکھوں روپے بھیجے کبھی حساب نہ لیا۔ میری یہ پوسٹ ابو بھی کل پڑھیں گے۔ میرے نام کا اکاؤنٹ تب کھلوا دیا گیا جب میں فرسٹ ائیر میں کالج داخل ہوا تھا۔ ساتھ ہی مجھے نوکیا 6600 موبائل بھی بھیجا۔ اور وہ پیسے میں کسی کو بھی بتائے بغیر اپنے چند دوستوں کو ادھار دیا کرتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ کسی کی مدد کرنی چاہیے۔ پیسے پڑے بھی ہوئے ہیں۔ مگر میں غلط تھا۔ کسی کو قرض اتنا ہی دو جو کبھی واپس نہ ملے تو دکھ نہ ہو۔ پیسوں کے ساتھ جان سے پیارے دوست بھی گنوائے۔
پھر میں نے لوگوں کو یونیورسٹی کی تعلیم اور انکے ایڈمیشن کے بارے معلومات دینا شروع کی۔ کونسی یونیورسٹی میں کب ایڈمیشن ہونا ہے۔ انٹری ٹیسٹ فیس اور ہاسٹل وغیرہ سب کچھ میں لوگوں کو بتایا کرتا تھا۔ جس کسی کا بالفرض ایڈمیشن نہ ہوتا وہ مجھے ہی برا بھلا کہتا کہ میں نے غلط یونیورسٹی اور غلط ڈیپارٹمنٹ میں فارم جمع کرائے۔ ہر لسٹ میں نام دیکھ کر بتانا بھی میری ذمہ داری ہوتا۔ اور یہ ساری سروس بلکل فری ہوتی تھی۔ میں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا۔
لوگوں کو شادیوں کے لیے بہت پریشان دیکھا۔ اپنے سرکل میں لوگوں کو ایک دوسرے کا بتانا شروع کیا۔ کافی دوستوں کی شادیاں بھی کرائیں۔ مگر لوگ مجھے یوں ٹریٹ کرتے جیسے میں ان کا کوئی نائی میراثی ہوں۔ میں تہہ دل سے یہ دونوں الفاظ لکھنے پر معافی مانگتا ہوں۔ ماضی میں ان دونوں محنت کش پیشوں سے وابستہ لوگ رشتے ناطے کرانے سے وابستہ رہے ہیں۔ اور لوگ اتنا خاص کام کرنے والوں کو کوئی عزت نہیں دیتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ کام چھوڑ دیا اب ہم سب رشتے طے کرنے میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ اور ہم یہی Deserve کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے مجھے رشتے کا کہا میں نہیں کرا سکا۔ انکی شادیاں ہوگئیں اور مجھے بتایا تک نہیں۔ میرے پاس جب کوئی سوٹ ایبل رشتہ آیا تو ان کو بتایا۔ انکا جواب ملا کہ ہماری شادی کو تو اتنی دیر ہوگئی ہے۔ سوری آپ کو بتا نہیں سکے۔ یہ سروس قریبی سرکل تک محدود تھی۔ انکی طرف سے ایسا رویہ کیا مناسب تھا؟ یہ کام بھی چھوڑ دیا۔
پھر میں نے سوچا کسی کی جاب ہو جانا بھی نیکی ہے۔ این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے تو اور لوگوں کو بھی ان امتحانات کی تیاری کرنی شروع کر دی۔ پانچ سال پیپر اور انٹرویو کی تیاری کرائی۔ کسی سے کبھی ایک پائی بھی نہ لی۔ مجھ سے ہی تیاری کرنے والوں کو بعد میں میرے بارے میں بکواس کرتے سنا تو بہت دل دکھا۔ کئی لوگوں نے میرے طریقے اور میرے نوٹس کو اپنے نام سے پرنٹ کرکے آگے تیاری کرانا شروع کر دی۔ اور پیسے بھی لینے شروع کر دیے۔ بات پیسوں کی حد تک بھی ٹھیک تھی۔ کم از کم میری محنت پر میرا نام تو لکھا رہنے دیتے۔ کسی کی جاب ہو جاتی تو شاید ہی کوئی مجھے میسج کرکے بتانا بھی گوارہ کرتا کہ ہم سلیکٹ ہو گئے ہیں۔
اور بھی اس طرح کے کئی کام ہیں جو میں مختلف اوقات میں کرتا رہا ہوں۔ اور چند سال پہلے یہ سارا سوشل ورک چھوڑ کر اپنی عادات پر کام کیا۔ اپنے معمولات کو ٹھیک کیا۔ کتابیں پڑھنا شروع کردیں۔ خود سے بہتر لوگوں کی تلاش کی۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ کچھ سفر کیے۔ اپنی زات اور خاندان، امی، ابو، دادا، دادی، بہن، بھائیوں اور بیوی بچوں کو کوالٹی ٹائم دیا۔ اپنی پروفیشنل اسکلز کو پالش کیا۔ سوشل ورک جاری تو رکھا مگر اسکی ترتیب بدل دی۔ الحمدللہ ذہنی سکون ہے اور ہر روز کچھ نیا پڑھتا ہوں۔ ہر نئے دن کو گزشتہ دن سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب کچھ بدلا ہے اور ان چند سالوں میں میرے مالی حالات بھی بہتر ہوئے ہیں کہ فضول کے سوشل ورک پر میں اب بہت زیادہ وقت ضائع نہیں کرتا۔
کسی کو وہاں تک اب کبھی نہیں لے کر گیا کہ اسکا کوئی عمل دل دکھا سکے۔ ایک فاصلہ رکھتا ہوں اور جس پر نیکی کرو اس کے شر سے بچو والی کہاوت بھی ٹھیک ٹھاک سمجھ آچکی ہے۔ کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہو تو خود ہی اس سے فوری دور ہو جاتا ہوں کہ اسکے پلٹ کر وار کرنے سے پہلے ہی اسکی دسترس میں نہیں رہتا۔ لوگوں کے ان دل دکھانے والے رویوں کی وجہ سے ہم اچھائی تو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ایسا ہم کسی لالچ میں کرتے ہیں۔ یہ تو اپنی ذات کی خوشی کے لیے سب کیا جاتا۔ اور ایسا تو ہو ہی نہیں جسے آپ دودھ پلائیں وہ آپ کو ڈسے نہیں۔ آپ کی عزت اور وقار پر وار نہیں کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہزاروں میں کوئی ایک دو ہونگے جو اپنے محسن کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔