Muft Mashware
مفت مشورے
مفت مشورے دینے میں تو ہم پاکستانیوں کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ مگر سب سے زیادہ مشورے سپیشل بچوں کے والدین کو دیے جاتے ہیں۔ کہ اسے فوراً فلاں حکیم، پیرا، ڈاکٹر، ہومیو پیتھک ڈاکٹر، فزیو تھراپسٹ کے پاس لے جاؤ۔ وہاں سے اسکا آپریشن کراؤ۔ اسکا آپریشن بلکل نہ کرانا، گھر بدلو یہاں سایہ ہے، اسے فلاں نلکے پر نہلاؤ اور بھی نجانے کیا کچھ۔ ایک بہن نے بتایا کہ میرا بیٹا نو سال کا ہے اور جسمانی طور پر مکمل مفلوج ہے۔
مجھے ایک پیر صاحب نے کہا کہ چاند کی فلاں رات کو اپنے تینوں کپڑے اتار کر (مکمل سر تا پا بے لباس ہو کر) بچے کو چاند کی روشنی میں رکھ کر یہ الفاظ پڑھنے ہیں اور اسکی چارپائی کے گرد چالیس چکر لگانے ہیں۔ اس بچے کا آسیب تمہاری کوکھ میں واپس آجائے گا جہاں سے اسے لگا۔ اور دوبارہ کوئی بچہ پیدا نہ کرنا۔ وہ کہتی ہیں کہ بھائی بچہ تو ٹھیک نہیں ہوا مگر میں اس احساس گناہ سے نہیں نکل پا رہی کہ میں نے اپنا ایمان بھی گنوا دیا اور شاید شرک جیسے گناہ کی مرتکب ہوئی ہوں۔
میرے بس ہو تو یہ ہر کسی کو اپنی طرف سے مشورہ دے دینے والوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کروں۔ کہ بظاہر آپ ہمدردی کر رہے ہوتے مگر آپ کو اور جن کے پاس آپ بھیج رہے ہوتے ان کو اس معذور کا ککھ بھی علم نہیں ہوتا۔ اپنے اٹکل پچو لگانے سے پلیز گریز کیا کریں۔ چچ چچ نہ کیا کریں نہ ایسے مشورے دیا کریں۔ دم درود میں معذوریوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اور کسی بھی سپیشل بچے کی بحالی کسی ایک فرد کا کام ہی نہیں ہے۔ اور سب سے اہم بات سپیشل بچے کو نارمل زندگی کی طرف لانے میں ہم جو مرضی کر لیں جب تک سپیشل ایجوکیشن ٹیچر کو ہم بحالی کی ٹیم میں شامل نہیں کریں گے۔ ہم مطلوبہ نتائج نہیں لے سکتے۔
پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سپیشل بچہ چاہے گھر ہو، کسی ہسپتال میں ہو، کسی کئیر ہوم میں ہو یا کسی بھی جگہ ہو۔ اس بچے کے علاج کے ساتھ ہی سکول کی عمر شروع ہونے پر اسکی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور اس بات کو سپیشل ایجوکیشن ٹیچر ہی سمجھتا ہے کہ IEP بنا کر کہاں سے کیا شروع کرنا ہے۔ ہمارے ہاں سپیشل بچے کے ابتدائی اور قیمتی ترین سال ان مشورے دینے والوں کی وجہ سے جگہ جگہ شہر شہر درگاہوں اور جعلی عطائیوں کے پاس ضائع ہو جاتے۔
والدین سوچتے ہیں کہ بچہ ٹھیک ہوگا تو سکول ڈالیں گے۔ دس پندرہ سال بعد تسلیم کیا جاتا کہ بچے نے ٹھیک نہیں ہونا اور تب تک سیکھنے کی صلاحیت ظاہر ہے بچپن میں سیکھنے جیسی نہیں رہتی۔ اور سپیشل افراد معاشرے کا قابل رحم و ترس حصہ بن جاتے ہیں۔ والدین اپنا سب کچھ اپنی جوانی روپیہ پیسہ ان بچوں کے علاج پر لگا دیتے ہیں اور پھر امداد کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ وہی پیسہ علاج کی بجائے بحالی پر لگائیں تو ان کو احساس ضیاع کبھی نہ ہو۔ بچہ ٹھیک تو ہوگا یا نہیں مگر بہت حد تک خود انحصاری سیکھ چکا ہوگا اور تعلیمی سفر شروع کر چکا ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا تمام سپیشل بچوں کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ اس کا صاف جواب ہے۔ نہیں۔ بہت سارے معذوری کی شدید حالت والے بچے ہمیشہ کئیر میں ہی رہتے ہیں۔ خود مختار نہ اپنی کئیر خود کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔
مگر بہت زیادہ بچوں کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان کا علاج تو نہیں مگر بحالی ممکن ہوتی ہے۔ اور ایسا لا علمی کی بنا کر کیا نہیں جاتا۔ چند ڈاکٹر دوستوں اور سپیشل بچوں کے پڑھے لکھے والدین کے ساتھ مل کر ایسا کوئی پینل بنانے کا سوچ رہا ہوں۔ جہاں سے کم از کم والدین کو بچے کا ممکنہ مستقبل بتا دیا جائے۔ کہ اس معذوری کے ساتھ اسکی آئندہ زندگی ایسی ہوگی اور آپ یہ کام کریں۔
باقی والدین کی اپنی مرضی ہے وہ بات کو ابھی نہ بھی مانیں چند ماہ یا چند سال بعد مان کر کام شروع کریں تو ان شاءاللہ ٹریک پر آجائیں گے۔ اور جو ایسی سروس کی تلاش میں ہیں وہ تو فوری طور پر ہی اپنا رخ ٹھیک سمت کی جانب موڑ سکیں گے۔ ایسا کوئی سیٹ اپ پہلے کہیں موجود ہو تو ضرور بتائیں۔