Mehv e Safar Roohen
محو سفر روحیں

ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی، شام کا وقت تھا میری دادی، پڑدادی، تائی امی، دو پھپھو، ایک دائی اماں "حیات بی بی" کو ملا کر ہمارے گھر چھ لڑکیاں تھیں۔ تایا ابو، دادا جی بھی گھر ہی تھی۔ ابو جی لاہور فیکٹری کام کرتے تھے تو وہ وہاں آج صبح ہی گئے تھے۔ لگ بھگ چار دہائیاں قبل آج کے دن کا واقعہ ہے جب آپ کے یہ بھائی خطیب احمد اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ایک طرف خوشیوں کی انتہا نہیں تھی پہلی اولاد اللہ نے دی اور تھا بھی بیٹا۔ میرا وزن بہت زیادہ تھا اور آنکھیں چینی تھیں تو بلکل بند تھیں۔ میری دادی اور پڑدادی دل ہی دل میں پریشان تھیں کہ بچہ بس آنکھیں کھول لے اور بچے نے دو دن بعد آنکھیں کھولیں تو ان دونوں کی جان میں جان آئی۔ باقی سب کو معلوم تھا بچہ صحت مند ہے اور آنکھیں چھوٹی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔
مجھے گھٹی میرے مرحوم تایا ابو نے دی۔ جو جزوی طور پر قوت سماعت سے متاثرہ تھے اور اسی وجہ سے سپیچ بھی محدود تھی۔ میرے سپیشل ایجوکیشن میں آنے کی ایک لاشعوری وجہ میرے تایا جی بھی تھے۔ مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے بے حد محبت تھی۔ میں سات سال کا تھا جب وہ وفات پا گئے۔ اسی شام کو ہمارے گھر دائی اماں کا پوتا شجر حسین آیا۔ وہ ہمارے گھر دیگر قرآن مجید پڑھنے آنے والے بچوں کے ساتھ صبح شام آیا کرتا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ آج چھٹی ہے اور وہ سپارہ پڑھنے آیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا گھر میں بچہ ہے اب اسکے ساتھ کھیلا کریں گے۔ وہ محبتوں بھرا دور تھا۔ اسے میں شاید اپنا سگا بھائی لگا۔ اس نے میری دادی جسے اس وقت سب اور اب بھی "چاچی جی" کہتے ہیں، کہا وہ کاکے کو تھوڑی دیر باہر لے جائے؟ ہمارے گاؤں میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے اور کچھ جھولے منیاری کی دکانیں لگ چکی تھی۔ وہ بچہ مجھے گھر سے بس تھوڑا سا باہر میلہ دکھانے لے گیا۔ اسکے ہمراہ ہی میری پڑدادی "محمد بی بی" بھی تھیں۔ صرف چند گھنٹوں کی عمر کے ایک ایسے بچے کو جس نے ابھی ایک بار اپنی آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں۔
شجر حسین آج کل حافظ آباد شہر میں فوجی بینڈ ماسٹر ہے اور اسے وہ دن وہ لمحہ بلکل یاد ہے جب اس نے مجھے پہلی بار اٹھایا تھا۔ چند سال پہلے اس نے خود مجھے یہ بات بتائی تو اسکی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا کہ وہ دور اب نہیں رہا۔
اس بچے نے سکول جانا سیکھا، کالج شروع ہوا تو شہر حافظ آباد چار سال گاؤں سے روز آنا جانا رہا، پھر پہلی ہجرت لاہور ہوئی یونیورسٹی سے ماسٹر اور ایم فل کیا۔ پھر واپسی اپنے علاقے میں سرکاری ملازمت کے بعد ہوگئی اور دس سال ایک ہی شہر ایک ہی سکول میں گزرے۔ آن ایورج دس بچے میری کلاس میں ہوا کرتے تھے۔ تو لگ بھگ ایک سو سپیشل بچوں کے ساتھ ان دس سالوں میں وقت گزرا۔ وہ بچے میری آنکھوں کے سامنے بڑے ہوئے سکول پاس گیا اور کچھ کالج گئے تو کچھ دیگر کام کاج کرنے لگے۔
انہی دس سالوں میں میرا آپ سے تعارف سپیشل بچوں کے متعلق لکھی گئی تحاریر کی وجہ سے ہوا۔ نئے دوست بنے، نئی جگہوں کے سفر کیے۔ زندگی چلتی رہتی ہے۔ انہی دس سالوں میں شادی ہوئی بیٹی ہوئی۔ پھر وہ شادی ختم ہوئی۔ چند سال بعد دوبارہ شادی ہوئی اولاد ہوئی۔
پچھلی زندگی تو جیسے ایک خواب سا لگتی ہے۔ کہیں بہت مشکل تھی اور کہیں آسان بھی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم میں ابراہم میزلو کی ایک Maslow's Hierarchy of Needs نامی تھیوری پڑھی تھی۔ آپ بھی پڑھیے گا۔ اسکی پانچ سٹیجز ہیں۔ ہماری اکثریت پہلی دوسری سٹیج تک ہی پہنچ پاتی۔ جب پہلے سمسٹر میں تھے تب ہی فیصلہ کیا سب سے اوپر کی سٹیج تک جانے کی پوری جان لگا کر کوشش کرنی ہے اور وہ کوشش آج تک جاری ہے۔
آپ بھی پڑھیے گا اور دیکھیے گا آپ کونسی سٹیج پر ہیں؟ اور بہت سے دوست احباب زندگی تو اتنا سیریس نہیں بھی لیتے۔ بس جیسی گزر رہی ہے اچھی گزر رہی ہے۔ کچھ میرے جیسی بے چین روحیں بھی ہوتی ہیں۔ جو ہمیشہ سفر میں رہتی ہیں۔ آپ میں بھی کئی میرے جیسے ہیں تبھی تو ہم ساتھ ہیں۔

