Main Aur Mera Catharsis
میں اور میرا کتھرارسس
میں جب محکمہ سپیشل ایجوکیشن میں بھرتی ہوا۔ تو اس وقت وہ جاب بہت اچھی تھی پچاس ہزار ماہانہ سیلری اور ستاون ہزار کا تولہ سونا تھا۔ سالانہ دس تولہ سونے کے برابر میری تنخواہ بنتی تھی۔ آج سونے کا حساب کریں تو تنخواہ ایک فیصد بھی نہ بڑھتی دس تولہ سونے کے برابر بھی اسٹینڈ کر رہی ہوتی تو اٹھائیس لاکھ روپے سالانہ بنتی تھی۔ جبکہ وہ اپنی زندگی کے قیمتی ترین دس سال گزارنے کے بعد اٹھارہ لاکھ سالانہ تھی۔ یعنی تقریباََ چالیس فیصد گھاٹے میں گئی۔ تنخواہ تو خیر ملازمت کا ایک ادنی سا پہلو ہے اس جاب کی کمائی اصل میں آپ لوگ ہیں جو اسی کام اور جاب کی وجہ سے مجھے ملے۔ آپ کی ویلیو تو بلین ٹریلین ڈالر بھی مل جائیں تو اس سے زیادہ ہے۔
بہرحال جب میں جاب میں آیا تو اپنے سے بعد میں آنے والوں کو پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری شروع کروائی۔ ہمارے محکمہ میں ہر سال ملازمت آتی تھی اور پورے پنجاب میں الحمدللہ جو تیاری کروانے والا معروف نام تھا وہ خطیب احمد تھا۔ کوئی بندہ ثابت کر دے ایک روپیہ یا کوئی تحفہ تک اس مد میں کسی سے وصول کیا ہو۔ ایک دو نہیں سینکڑوں لوگ الحمدللہ پیپر پاس کرکے انٹرویو کلئیر کرکے سکیل سترہ اور سولہ میں ملازمت میں آئے۔ میں کہتا تھا سکیل سترہ کو جائن کریں اس سے پیچھے کچھ نہیں رکھا سرکاری جاب میں۔
میں میں میں کی رٹ کو آج زرا ہمت کرکے برداشت کر لیں۔ آئندہ ہاتھ ہولا رکھوں گا۔ میری نیچر شروع سے ایسی ہی ہے۔ جہاں خود ہوتا ہوں وہاں اپنے سرکل کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ کہ ان کو تھوڑے بہت ادھار پیسے دے کر ان کو احسان مند کرتا رہوں اور خود آگے بڑھتا چلا جاؤں۔ اپنی لائف انجوائے کروں اور دوسروں کے حالات پر افسردہ ہو جاؤں۔ دیکھیں کوئی کسی کے حالات نہیں بدل سکتا۔ جو مرضی کر لے۔ اس کی ایک قیمت ہے وہ بہرحال ادا کرنا پڑتی ہے۔ محنت، لگن، جستجو، کوشش، مشکل کا سامنا کرنا اور اللہ سے دعا بھی کرنا۔ ہمارے بس میں کیا ہوتا ہے؟ اپنے سرکل سے وہ مواقع اور تجربات اور وزڈم شئیر کرنا جو ہماری لائف میں کسی بھی قسم کی کوئی آسانی یا سہولت لے کر آئے ہوں۔ آگے کسی کی قسمت اور کوشش ہے وہ ان سے کیا سبق لیتا ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ بہرحال ضرور ہونا چاہئیے۔ اپنی بساط اور اسطاعت کے مطابق۔
جب میں نے وہ تیاری کرانے کا کام شروع کیا تو ان تمام لوگوں نے یہ بکواس کی کہ اسکا کوئی ایجنڈا ہے۔ کوئی فری میں یہ کام کیوں کرے گا۔ اتنا وقت کون پاگل بلکل مفت کسی کو دیتا ہے۔ کچھ تو ہے اندر جو بعد میں سامنے آئے گا۔ جبکہ میرے اندر جو کیڑا تھا وہ یہ تھا کہ جو نئے ٹیچر آئیں وہ سپیشل بچوں کے ساتھ سرکاری سکول کے ٹیچر والا رویہ نہ رکھیں۔ بلکہ جو نالج یونیورسٹی سے لے کر آئے ہیں اسے اپلائی کریں۔ یہی میرا مفاد تھا اور میرے کام پر تنقید کرنے والے اکثریت میں آج میرا ہی وہ کام پیسے لے کر سروسز دے رہے ہیں۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں میری اس فری سروس کا خفیہ ایجنڈا کیا سامنے لائے آپ لوگ؟
اسی طرح ابھی جاب سے نکلا ہوں عمان آیا ہوں۔ تو اپنے اچھے تجربات شئیر کر رہا ہوں۔ کسی کو سمجھ آتی ہے تو وہ ان کو سمجھ کر اپنا فیصلہ خود کرے۔ میری نا تو ویزہ ایجنسی ہے نا ہی میں نے گائیڈ کرنے کے کوئی پیسے لینے ہیں کسی سے۔ آپ جاب میں رہیں یا نہ رہیں، عمان آئیں یا افریقہ جائیں۔ مجھے کیا فائدہ آپ سے؟ یا میرا کوئی نقصان؟ آپ کو جو سمجھ آیے گا وہی کریں گے۔
میں تو اپنا کتھارسس لکھتا ہوں۔
اب اگر کوئی کہتا ہے کہ اچھے جاب کے فائدے اپنے ہیں، باہر کی زندگی اتنی آسان نہیں۔ تو ماری رکھو جپھا یار جاب کو۔ میں کونسا آپ کا ریزائن لیٹر ٹائپ کر رہا ہوں۔ سب کو اپنا اچھا برا سب معلوم ہے۔ آپ میری کسی پوسٹ پر اگر اختلاف کرتے ہیں تو بات دلیل سے اور پوری کریں۔ بونگی نہ ماریں۔ اگر آپ کا مقصد واقعی گائیڈ کرنا ہے تو گائیڈ کریں۔ بات کو پوری لکھ کر۔ نہ کہ اپنے کسی ذاتی تجربے کی بنا کر اسے کسی بھی پورے ملک پر اپلائی کر دیں۔
مجھے کئی دوستوں نے کہا عمان اب اجڑ چکا ہے۔ وہ یہاں رہتے تھے۔ دیکھیں بھائی اگر آپ کی جاب اچھی نہیں آپ کا کام اچھا نہیں چل رہا تو عمان ہرگز نہیں اجڑا۔ آپ اوروں کو بد دل نہ کریں۔ اپنا کام یا ملک بدل لیں۔ ایسا ہی پاکستان کے متعلق کہا جاتا ہے۔ وہاں اب کچھ نہیں رکھا۔ او بھائی کیوں نہیں رکھا کچھ وہاں۔ ہم جہاں مرضی چلے جائیں۔ بد ترین جمہوریت یا آمریت کے ادوار میں بھی اپنا ملک اپنا ہی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے کروڑوں لوگ بہت اچھی لائف بھی گزار رہے ہیں۔ جن کو مشکلات در پیش ہیں وہ انکا تدارک خود کریں۔ نا کہ ملک ہی اچھا نہیں ہے اور یہ ہر کسی کا ذاتی فیصلہ ہے وہ کہاں اور کس ملک میں خوش رہتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ چند سال ہمیں دس بارہ ملکوں میں تھوڑا تھوڑا قیام کرکے گزارنے چاہئیں۔ بندہ بہت کچھ سیکھتا ہے۔ جہاں بھی جائیں اللہ نے ہاتھ پاؤں اور عقل دی ہے اپنے گزر بسر کا کما بھی لیں۔
میرے لیے ایسا گورنمنٹ جاب میں رہتے ہوئے تو ممکن نہیں تھا۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے میرا محکمہ بہت اچھا ہے۔ اتنی عزت اور آزادی کوئی سرکاری سول محکمہ اپنے ملازمین کو نہیں دیتا جتنی مجھے ملی اور دوسرے ملکوں میں رہ پانا میرے لیے نہ فنانشلی ممکن تھا اور نہ ہی اسکی اجازت ملنی تھی۔ تو جاب سے رخصت لے کر سفر شروع کر دیا۔ اللہ رب العزت آپ کے لیے بھی بہت آسانیاں پیدا کرے۔ پلیز ہمت دیا کریں لوگوں کا دل برا نہ کیاکریں اور ان کو کہا کریں کہ یہاں آکر کوئی مشکل آئی تو ہم موجود ہیں سنبھال لیں گے اور ظاہر ہے یہ بات کرنے کے لیے اپنا بھی کوئی لیول ہونا چاہئیے۔ اس لیول پر پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ نہ کہ آنے والوں کو بھی کہا جائے یہاں نہ آنا بھائی۔