Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Main Aisa He Hoon

Main Aisa He Hoon

میں ایسا ہی ہوں

میرے دل میں جو ہوتا ہے۔ عموماََ میں وہی لکھتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا میری شخصیت کا کوئی مقدس بت بنے۔ اس کے باوجود بھی وہ بت بننا شروع ہو چکا ہے اور میں اس بت کو توڑنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ ایسی باتیں بھی کرتا ہوں کہ جن سے کبھی کبھی اکثریت اختلاف کر لیتی ہے۔ مگر میرا وہ موقف ہے تو بس ہے۔

شادی کی عمر پچیس ہو یا پینتیس والا ایک مشہور زمانہ سروے اسکی ایک مثال ہے۔ میں چاہتا تو اس بات کو شروع ہی نہ کرتا ایک حساس موضوع تھا۔ جب پوری فیس بک پر زلزلہ آگیا تو کئی سینئر دوستوں نے کہا کہ معذرت کر لو۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ ری ایکشن کو فیس کیا۔

میں بھی میٹھے میٹھے موضوعات، اسلامی ٹچ، اور پرو میکس لیول کی اخلاقیات اور وزڈم شئیر کرکے سب کو خوش رکھ سکتا ہوں۔ مگر میں ایک زندہ انسان ہوں کوئی ممی نہیں جو مجھ سے کوئی اختلاف ہی نہ کرے۔ اس سب کے بعد کوئی میرا لکھا پڑھتا ہے تو وہ میرے لیے قابل عزت ہے کہ اس نے میری خوبیوں اور خامیوں کو قبول کرکے مجھے اپنا دوست رکھا ہوا ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

میری عام زندگی میں بھی یہی روٹین ہے کہ اپنی لائف میں جو بھی ڈیویلپنٹ آتی ہے۔ وہ سب دوستوں سے شئیر کرتا ہوں اور وہی عادت یہاں فیس بک پر بھی ہے۔ میرے کچھ ناقد یہ بات کرتے ہیں کہ سپیشل ایجوکیشن میں خطیب سے قابل ہزار لوگ پاکستان میں ہیں۔ بس یہ سوشل میڈیا کا بروقت مثبت استعمال سیکھ کر نمایاں ہوگیا۔ وہ یہ بات بلکل سچ کہتے ہیں۔

ہر بات ہر کسی سے کرنے والی نہیں ہوتی۔ میرے کچھ ایسے فیس بک دوست ہیں جو مجھے میری حیثیت سے ذیادہ عزت اور مان دیتے ہیں۔ میرے کہنے پر گھر پڑا سونا بیچ کر سولر لگوا لیتے ہیں، اضافی پلاٹ بیچ کر خود کو اور فیملی کو گاڑی جیسی سہولت دیتے ہیں، میری کچھ بہنوں نے بتایا کہ انہوں نے میرے کہنے پر اپنی جاب کے بلکل آغاز میں شادی کا فیصلہ کیا کہ جاب میں کچھ عرصہ بیت جانے کے بعد شادی کا معیار بہت بدل جاتا اور مناسب رشتہ نہیں ملتا۔ انکی ہی کئی کولیگز اس ایشو کو فیس کر رہی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں میرے ناقد بھی میری کچھ باتوں کو تو مان ہی لیتے ہونگے۔ میں اپنی بتاوں تو انکی وال سے کچھ اچھا ملے اسے قبول کرتا ہوں۔ میں بہت لوگوں کو پڑھتا ہوں مگر کومنٹس کرنے میں زرا سست ہوں۔

میری لائف میں اس سال بہت بڑے بدلاؤ آئے ہیں۔ میں ان میں سے کوئی بھی سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کر سکتا۔ پرائیویسی ایشوز کے ساتھ وہی بات کہ ہر بات سرعام کرنے کی نہیں ہوتی۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے والے میری عمر کے لوگ جو اپنے کیرئر کے جوبن پر ہیں۔ ان کے لیے جہاں میرے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے وہاں مجھے انکی کہانی بھی سننے کا شوق ہے۔

اس میری عمر میں عام پریکٹس یہ ہے لوگ بہت مصروف ہو جاتے ہیں۔ میں نے خود کو تھوڑی سی بریک دے کر ایزی کیا ہے اور وہ کام کرنے والا ہوں جو میں آج سے پچیس سال بعد ریٹائر ہو کر کرتا۔ لائف کے ریٹائرمنٹ والے تجربے کو پچیس سال پہلے کرکے اسکے نتائج شئیر کروں گا کہ کیا ساٹھ سال کی عمر تک خود کو بہت مصروف رکھنا اور ایک سائیکل میں چلتے رہنا اچھا ہے یا جوانی میں کچھ وقت نکال کر اپنے خواب پورے کر لینا اچھا ہے۔ جو لوگ اپنے کامنٹ پر میرا ری ایکشن یا رپلائی دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں ان سے میں بات کیوں نہ کروں۔ وہ جگہیں کیوں نہ آج دیکھوں جو میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد پلان کر رکھی تھیں۔

کوئی ایسا سلسلہ شروع کرنے کا سوچ رہا ہوں کہ ہم فون کال وڈیو یا آڈیو پر ایک دوسرے سے ون ٹو ون بات کر سکیں۔ میں سکول سے ایک لمبی چھٹی پر ہوں۔ میرے پاس وقت ہے۔ کیا آپ کے پاس وقت ہے کہ ہم پوسٹ اور کامنٹس کی دنیا سے باہر نکل کر مل سکیں یا کم از کم بات کر سکیں؟

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed