Main Ab Mashhoor Ho Gaya Hoon
میں اب مشہور ہو گیا ہوں
دنیا میں جتنی بڑی ایجادات ہوئی ہیں۔ سب کے پیچھے سائنسدانوں کی پوری پوری زندگیاں ہیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی لیب یا تجربہ گاہ یا تحقیق میں سالہا سال لگے رہتے تھے۔ صادقین، گل جی، جمیل نقش پاکستان کے ٹاپ پینٹر ہیں جنکی ایک پینٹنگ آج کروڑوں میں بکتی ہے۔ وہ لوگ کسی سے بھی نہیں ملتے تھے۔ بس اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے۔ بڑی تصنیفات کے مصنفین کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے۔
بڑے شاعر، اداکار، گلوکار بھی اسی صف میں شامل ہیں۔ یکسوئی، تنہائی اور مستقل مزاجی سے لکھا کرتے تھے۔ کوئی ان کو ڈسٹرب کرنے اور ان کے کام میں ڈسٹرب کرنے والا نہ ہوتا تھا۔ وہ اتنے سینکڑوں، ہزاروں لوگوں سے انٹریکشن، سوال و جواب اور رابطے میں ہوتے جتنے لوگوں سے آج ہم سوشل میڈیا کے رائٹرز ہیں۔ وہ ہمارے جتنے رابطے رکھتے تو کسی صورت بھی ہمیں اپنی شاہکار تصانیف نہ دے کر جاتے۔
میں وٹس ایپ پر آنے والے بے شمار میسجز نہیں پڑھ پاتا، ایک آدھ میسج کا رپلائی ممکن ہوتا میسج پر لمبی بات نہیں ہو پاتی۔ کال بھی مختصر ہی سن پاتا ہوں۔ میسج پڑھ بھی لوں تو موڈ نہ ہو رپلائی نہیں ہو پاتا۔ کئی ماہ کے میسیجز ان ریڈ پڑھے ہوئے ہیں۔ وٹس ایپ سٹیٹس پر دوست رپلائی کرتے سب کے رپلائی نہیں دیکھ پاتا۔ دو سال قبل میں وٹس ایپ سٹیٹس پر لمبی لمبی کہانیاں لکھا کرتا تھا۔ سب کو رپلائی بھی کیا کرتا تھا۔
اب ایک تو زیر تصنیف کتاب کو مکمل کرنے کے لیے مجھے کوالٹی ٹائم کی تنہائی درکار ہوتی ہے۔ دوسرا رابط کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ایک سال میں سولہ ہزار سے زیادہ فالورز ہو گئے۔ قریبی دوستوں کی کال مس ہو جائے تو ایک دو دن لگ جاتے کال بیک کرنے میں۔ آپ میسیج میں بات کہہ لیا کریں ان شاءاللہ پہلی فرصت میں رپلائی کر دونگا۔
میں اب کوئی بڑا آدمی نہیں بن گیا بھائیو اور بہنو۔ بس میرا فوکس اب لکھنا اور تحقیق کرنا ہے۔ بہت زیادہ دوستیوں اور لمبی بیٹھکوں میں گپ شپ کے لیے اب میرے دوستوں کو دس بیس سال انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے بشرط زندگی اس دنیا کو کچھ دے لینے دیں۔ آپ لوگوں کو تو دس بیس لوگوں کو ٹائم دے پاؤں گا۔ اور میرا لکھا ہوا مواد تو لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے آسانیاں ابھی بھی ان شاءاللہ پیدا کرے گا اور میری زندگی کے بعد بھی۔
یہ وضاحت میں کئی دوستوں کے مجھ سے ڈائیریکٹ اور ان ڈائیریکٹ شکوؤں کے بعد لکھ رہا ہوں۔ کہتے تم اب مشہور ہو گئے ہو ہمیں بھول گئے۔ کچھ قریبی دوست اور میرے استاد تو حسد میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ آپ کی آنکھیں آپ کے طنز بھرے الفاظ، آپ کے اندر کا ان کہا سچ بتا رہے ہوتے ہیں۔ آپ خود کو جو آگ لگا چکے اس میں آپ اب ناجانے کب تک جلتے رہیں؟ اس کا میرے یا کسی اور کے پاس کوئی علاج نہیں۔
کچھ دوست ناراض ہیں کہ میں اب بدل گیا ہوں۔ میں ان کے ساتھ ہی پلا بڑھا ہوں یہاں تک پہنچا ہوں اور اب ان کو ملتا نہیں۔ یار جتنا وقت ہمارا ساتھ تھا وہ رہا۔ آپ کی اور میری ترجیحات اور زندگی ایک سی نہیں ہے۔ میں جو اپنی فیملی کو نپا تولا ٹائم دے پاتا ہوں اور کسی کو کیسے بہت زیادہ وقت دے سکتا ہوں۔ آرٹسٹ لوگوں میں میرا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا رہا ہے۔ وہ ہر کسی کو دستیاب رہنا کسی صورت بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ ورنہ کچھ بھی منفرد پرڈیوس نہ کر سکیں۔
کچھ نیا اور معیاری مواد چاہے وہ کچھ بھی ہو پرڈیوس کرنے کے لیے تنہائی اور مستقل یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ جو روز نئے لوگوں سے رابطے میں آ کر کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ بے شمار لکھنے والے دوستوں میں غیر معمولی قابلیت دیکھتا ہوں۔ ان کو بھی کہوں گا کہ اس سوشل میڈیا کے رش سے خود کو تھوڑا سا دور رکھیں اور ہر کسی کو دستیاب رہنے کی بیکار کوشش میں اپنا ٹیلنٹ اور وقت ضائع نہ کریں۔
نہ ہی ہر کسی کے کمنٹ اور میسج کا رپلائی کرنا ضروری ہے۔ اور ہمارے دوست بھی اس بات کو پلیز سمجھیں کہ ہم آپ لوگوں سے تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ہمیں کوئی اچھا مضمون لکھنے کے لیے ناجانے کتنے دن خود کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ اپنی ذات کو وقت دینا پڑتا ہے اور بے شمار تحقیق کرنا ہوتی ہے۔ تب جا کر کوئی ایسی تحریر بن پاتی ہے جو پڑھنے والے کو جکڑ لے۔
دو دن پہلے لکھی گئی مارفن سنڈروم والی تحریر ویسی ہی ایک منفرد تحریر تھی۔ میری کتاب میں آپ کو ایسی بے شمار تحریریں ان شاءاللہ پڑھنے کو ملیں گی۔ اور میرے سب ناراض دوست جن کو وقت نہیں دے پاتا، بشمول آپ کی بھابھی مجھ سے راضی ہو جائیں گے کہ یار خطیب بلا وجہ تم سے ناراض ہوئے تھے۔