Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Mahnoor, Rameez Aur Khabikki Jheel (2)

Mahnoor, Rameez Aur Khabikki Jheel (2)

ماہ نور، زمیز اور کھبیکی جھیل (2)

 رمیز اپنی ماں کی باتوں میں آگیا۔ اور اس نے ماہ نور کو بتا دیا کہ وہ ایک اور شادی اپنے والدین کی رضا سے کرنا چاہتا ہے۔ وہ ماہ نور کو الگ گھر میں رکھے گا اور اسکے سب حقوق پورے کرے گا۔ ماہ نور نے خلاف توقع رمیز کی یہ بات مان لی اور اسے کہا کہ ٹھیک ہے تم شادی کر لو۔ مگر اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ کہ اس نے اپنے گھر میں بڑی جنگ کے بعد یہ رشتہ کرایہ ہے۔ اگر طلاق لے کر جاؤں گی تو کس منہ سے واپس جاؤں گی؟ گھر والے تو نہیں کچھ کہیں گے زمانہ جینے نہ دے گا کہ لو میرج کرائی اور چار دن میں طلاق لے کر واپس آگئی۔ میں اپنے بھائی اور باپ کا بھی سامنا کن نظروں سے کروں گی کہ وہ بھی اس رشتے پر راضی نہیں تھے۔ ایک دشمنی کی فضا بنے گی۔ تم شادی کر لو جہاں رکھو گے میں رہ لوں گی۔ بس مجھے کبھی بھی چھوڑنا مت۔

جب رمیز کا رشتہ دیکھنے لگے تو کوئی بھی ایک بیوی کے ہوتے اپنی بیٹی دینے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ جب معلوم ہوتا کہ پہلی لو میرج ہے تو لوگ اور پیچھے ہٹ جاتے کہ لو میرج کے بعد دوسری تلاش کر رہا ہے۔ ہماری کے ساتھ کیا خاک نباہ کرے گا۔ رمیز کی امی نے ایک لڑکی اپنے رشتہ داروں میں تلاش کی۔ انہوں نے ایک شرط رکھی کہ پہلی کو طلاق دو تو رشتہ دیں گے۔ رمیز کی ماں نے بیٹے کے پاؤں پر اپنا دوپٹہ رکھا کہ تمہاری ماں ہوں۔ تمہارا ہی بھلا چاہتی ہوں اسے چھوڑ دو اور نئی جگہ تمہاری شادی کرا دیتی ہوں۔ وہ نہ مانا کہ میں نے اپنی بیوی سے وعدہ کیا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ تو لکھ کر مجھے اجازت دے چکی ہے۔ آپ پھر بھی اس پر ظلم کرانا چاہ رہی ہیں۔ مگر اسکی ماں نے کبھی بہو کو دل سے قبول ہی نہیں کیا اور اپنی جہالت کی بنا پر سپیشل بچی کی وجہ سے اسے منہوس سمجھنے لگی تھی۔ وہ ہر صورت اس لڑکی سے اپنے بیٹے کا پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔

رمیز نے ماں کے آگے ہار مان لی۔ اور ماہ نور سے کہا کہ وہ اب ماں کی بات نہیں ٹال سکتا۔ جس دن اس نے ماہ نور سے یہ بات کی۔ اس دن ہی ماہ نور کا حمل ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ وہ رمیز کو یہ بات بتانا چاہتی تھی مگر اپنے جیون ساتھی کا یہ فیصلہ سن کر صدمے میں چلی گئی اور نہ بتا سکی۔ اس نے رمیز سے کہا کہ وہ اسکے اور اسکے سب گھر والوں کے پاؤں پکڑتی ہے اسے طلاق نہ دیں۔ تمہاری ایک نہیں دو تین اور شادیاں کریں۔ میں خود ساتھ جاتی ہوں مگر مجھے واپس نہ بھیجیں۔ ماں باپ کی مرضی سے بیاہی ہوئی واپس جانا اور بات تھی اب مرضی کی شادی سے طلاق لے کر جانا میرے لیے مر جانا ہے۔ ایک لمحے کو سوچ کر تو دیکھو۔ مگر رمیز نہ مانا۔

چند دن بعد ماہ نور نے رمیز سے کہا کہ وہ اسے چند ماہ کا وقت دے۔ وہ سٹڈی ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ صرف اسکی زندگی سے بلکہ اس ملک سے بھی ہمیشہ کے لیے چلی جائے گی۔ ایسا اس نے اپنے خاوند کے پاؤں پکڑ کر کہا۔ رمیز کا دل پسیج گیا اور اس نے ہاں کر دی اور مان گیا کہ اسے طلاق نہیں دے گا۔ یہاں بھی ماہ نور نے اپنے حمل کی بات شوہر کو نہیں بتائی۔ اپنا زیور بیچا گھر والوں سے کچھ پیسے لیے پاسپورٹ بنوایا اور ویزہ کی کوشش کرنے لگی۔ اسکے گھر والوں کو کچھ بھی خبر نہ تھی کہ ہماری بیٹی پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کونسی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ وہ اپنے اوپر سہہ رہی تھی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہی تھی۔

دو ماہ بعد ہی ویزہ لگ گیا اور ماہ نور جرمنی چلی گئی۔ جس دن اس نے جانا تھا اس نے اپنے خاوند کو بتایا کہ وہ اسکے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ چاہے تو اسے روک سکتا ہے۔ مگر رمیز نے کہا کہ نہیں وہ جا سکتی ہے۔ ماہ نور نے رمیز سے کہا کہ ہم پانچ سال بعد دوبارہ ایک آخری بار مل سکتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے کہ ایک دوسرے سے بچھڑ کر یہ پانچ سال کیسے گزرے کیا کھویا کیا پایا۔ اور ان پانچ سالوں میں ہمارا کوئی رابطہ نہ ہوگا۔ تم شادی کرکے اپنی زندگی شروع کرو۔ میرا سامان جہیز واپس نہ بھیجنا کسی غریب کی بیٹی کو دے دینا۔ میرے گھر والے تم لوگوں کے گھر کبھی نہیں آئیں گے نہ کوئی مطالبہ کریں گے۔

رمیز نے کہا کہ ٹھیک ہے پانچ سال بعد ملیں گے۔ دسمبر کی فلاں تاریخ کو کھبیکی جھیل پر۔ اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ دونوں شادی سے پہلے یہاں آنا اور ایک سرد رات گزارنا چاہتے تھے۔ مگر شادی کے بعد خوشی ہی نہ میسر آئی اور ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ دونوں نے کہا کہ ایک آخری ملاقات اسی جگہ ہوگی جہاں ہم کبھی جانے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ ماہ نور جرمنی چلی گئی اور رمیز نے چند ماہ بعد شادی کر لی۔

آج پانچ سال بعد ماہ نور پاکستان واپس آئی تھی۔ اسکی واپسی کا اسکے گھر والوں کو علم نہیں تھا۔ اس نے کل ہی واپس چلے جانا تھا۔ اور یہاں وہ اپنے خاوند کا انتظار کر رہی تھی۔ رات کے دو بج گئے مگر رمیز نہ آیا۔ وہ اپنے کمرے میں آئی اور سو گئی۔

صبح اٹھی ناشتہ کیا اور صالح محمد کے ساتھ جابہ واپس آئی۔ گاڑی لے کر وہ لوگ پیل گاؤں آئے۔ مستری ناصر نے چیمبر کھول کر نیچے سے سلور ویلڈنگ کرا دیا اور نیا موبل آئل ڈال کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔ اس کام پر چھ گھنٹے لگے۔ صالح محمد نے پیل گاڑی چھوڑنے جانے کا کوئی پیسہ نہیں لیا۔ بہت ہی ہیرا انسان تھا۔ جب تک گاڑی ٹھیک نہ ہوئی وہیں بیٹھا رہا۔

ماہ نور کی واپسی کی فلائٹ اسی رات کو تھی۔ اس نے سوچا ایک بار فون کرکے پوچھ لیتی ہے کہ وہ کیوں نہیں آیا۔ اس نے کال کی اور بات رمیز کے بھائی سے ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ لوگ قبرستان میں اسے دفنا رہے ہیں۔ رمیز نے کل رات خود کشی کر لی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ماہ نور ہے۔ اسکے دیور نے بتایا کہ بھابھی آپ کے بعد بھائی کی جس لڑکی سے شادی ہوئی وہ شادی سے پہلے ہی حاملہ تھی۔ بھائی نے نجانے کیسے یہ بات قبول کرلی کہ شاید اسے آپ کے ساتھ ایسا کرنے کی سزا ملی ہے۔ بہت تماشا ہوا۔ بھابھی میکے چلی گئیں۔

بچہ ہوا تو چند دن بعد اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی اور یہ ساری بات ہر جگہ پھیل گئی کہ بچہ رمیز کا نہیں تھا۔ جس کا تھا وہ لڑکی اور اپنا بچہ لے گیا۔ بھائی کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہنے لگا۔ نوکری چلی گئی عزت تو پہلے ہی جا چکی تھی۔ ہم لوگوں نے وہ شہر چھوڑ دیا۔ آپ کا کوئی رابطہ نمبر نہیں تھا آپ کے میکے کس منہ سے جاتے اور کون جاتا۔ آپ کے گھر والے تو شاید آپ سے رابط کرا ہی دیتے مگر ہمارے اندر انکا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ کل رات بھائی نے زہر کھا لی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے کی وفات پا گئے۔

ماہ نور نے اسے بتایا کہ تم ایک بھتیجے کے چاچو ہو۔ اپنے گھر اپنی امی کو بھی بتانا چاہو تو بتا دینا کہ تمہارے بھائی کا ایک بیٹا ہے۔ وہ معذور نہیں ہے، جو جرمنی میں ہے۔ مگر تم لوگ کبھی اس بچے کی شکل بھی نہیں دیکھ پاؤ گے۔ میں اسے پاکستان کبھی نہیں لاؤں گی۔۔

Check Also

Ulta Sinfi Kirdar

By Najeeb ur Rehman