Mahnoor, Rameez Aur Khabikki Jheel (1)
ماہ نور، زمیز اور کھبیکی جھیل
دسمبر کی ایک سرد شام میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایک فلائیٹ اتری۔ فلائیٹ میں ماہ نور نامی ایک لڑکی نے یہاں سے کھبیکی جھیل وادی سون سکیسر جانا تھا۔ ماہ نور کی دوست نے ائیر پورٹ پر اسے ویلکم کیا اور بہت اصرار کیا کہ وہ اسے بھی ساتھ جھیل پر لے جائے۔ مگر ماہ نور نہ مانی کہ اسے اکیلے ہی جانا ہے۔ اپنی دوست کو اسکے گھر چاندنی چوک راولپنڈی ڈراپ کرکے ماہ نور نے کھبیکی جھیل کی لوکیشن آن کی اور گاڑی کا منہ لاہور موٹروے کی طرف موڑ لیا۔ رات کی سیاہی چھانا شروع ہو چکی تھی۔ لوکیشن کے مطابق وہ 11 بجے جھیل پر پہنچ رہی تھی جبکہ اسے 12 بجے وہاں پہنچنا تھا۔ وہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی پہنچنے والی تھی۔
کلر کہار سے گاڑی نے موٹروے چھوڑ دی اور خوشاب روڑ پر آگئی۔ پیل موڑ سے لوکیشن نے جابہ گاؤں کی طرف گاڑی موڑ دی۔ چند کلومیٹر کے بعد سڑک انتہائی خراب بلکہ خطرناک حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ ہنڈا سوک گاڑی معمولی سے جمپ پر بھی نیچے سے لگ جاتی ہے اور یہاں تو ٹھاہ ٹھاہ نیچے لگ رہی تھی۔ کچھ سڑک ٹوٹی ہوئی اور اوپر سے سڑک پر کھڈوں میں پانی بھرا ہوا۔ ماہ نور اپنے سامنے چلنے والے ایک ٹرک کو فالو کر رہی تھی۔ جہاں سے وہ گزرتا وہ وہیں سے گاڑی گزار لیتی۔ ایک گہرے پانی کے تالاب میں گاڑی گئی تو ٹھاہ کرکے اسکا چیمبر نیچے کسی نوک دار پتھر سے ٹکرایا اور میٹر میں انجن چیک لائیٹ کے ساتھ الہ دین کے چراغ جیسی ایک لائٹ آن ہوگئی۔ ماہ نور نے گاڑی بند کر دی۔ باہر نکلنا ممکن نہیں تھا ہر طرف کیچڑ اور پانی تھی۔
پیچھے سے ایک چھوٹی سوزوکی راوی (لوڈر گاڑی) آ رہی تھی۔ اس نے گاڑی کے انڈیکیٹر آن دیکھے تو قریب آکر گاڑی روکی۔ ماہ نور نے شیشہ نیچے کرکے جو ہوا تھا وہ بتایا۔ لوڈر کے ڈرائیور نے ماہ نور کو بتایا کہ اس کا نام صالح محمد ہے اور وہ ایک کلومیٹر آگے واقع گاؤں کا رہائشی ہے۔ ابھی اسکی گاڑی میں مونگ پھلی ہے۔ وہ اتار کر آتا ہے اور گاڑی کو ٹوچن ڈال کر یہاں سے باہر نکالتے ہیں۔ پریشان نہیں ہونا وہ بس 10 منٹ میں آجائے گا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ اور ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ وہاں سے کوئی چیز نہیں گزر رہی تھی۔ چند منٹ بعد ہی صالح محمد اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں آگیا۔ گاڑی کو ٹوچن کرکے وہاں سے نکالا۔ جابہ اڈے پر آکر نیچے دیکھا تو چیمبر پھٹ چکا تھا۔ اور انجن آئیل سارا نکل چکا تھا۔ صالح محمد نے ماہ نور کو کہا کہ آپ ہماری بہن ہیں آپ ہمارے گھر چلیں صبح گاڑی کو پیچھے ایک بڑے گاؤں پیل مستری ناصر کے پاس لے کر جائیں گے۔ وہ یہ کام ٹھیک کر دے گا۔ ابھی گاڑی غلط ہو چکی ہے یہ نہیں چل سکتی۔ اس علاقے میں خراب ہونے کو غلط ہونا کہا جاتا ہے۔
ماہ نور نے اسے کہا کہ وہ اگر اسے کھبیکی جھیل پر چھوڑ دے تو اسے کرایہ دے دے گی اور شکر گزار بھی ہوگی۔ صالح محمد نے بتایا کہ اس وقت وہاں کچھ نہیں ہوگا سردی کے موسم میں تو وہاں دن میں کوئی نہیں ہوتا رات کو کون ہوگا۔ ماہ نور نے بتایا کہ اسکا کمرہ وہاں بک ہے۔ وہاں TDCP کا ہوٹل ہے اور وہاں موجود اسٹاف سے اسکا رابطہ ہے۔ صالح محمد نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ چار ہزار روپے لے گا اور رات وہاں ہی رکے گا صبح آپ کو وہاں سے واپس بھی لے آئے گا۔ ماہ نور نے کہا بھائی آپ 5 ہزار لے لینا۔ چلیں آپ۔۔
ٹھیک سوا گیارہ بجے وہ لوگ جھیل پر تھے۔ جھیل کے کنارے پر لگی برقی شمعیں بجھ چکیں تھیں اور ایک گارڈ وہاں پہرہ دے رہا تھا۔ گارڈ کو ماہ نور نے بتایا کہ اسکی بکنگ ہے اور وہ اسے وہاں موجود کنٹین میں لے گیا۔ جہاں سے اسے نام لکھوانے کے بعد کمرہ کی چابی ملی۔ ماہ نور نے وہاں موجود ملازم سے پوچھا کہ کھانے میں کچھ مل سکتا ہے؟ اس نے بتایا کہ کلب سینڈوچ مل سکتا ہے اور چائے مل سکتی ہے۔ ماہ نور نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے ایک سینڈوچ بنا دو اور ایک چائے۔ آدھے گھنٹے بعد جھیل کنارے ایک ٹیبل پر رکھ دینا۔ اور وہاں موجود لائٹس آن کرا دو۔ ان کو اس وقت آن کرنے کی جتنی بھی اضافی پیمنٹ ہوئی میں کر دونگی۔ ان کو بند نہیں کرنا۔ اور گارڈ نے جا کر لائٹس آن کر دیں ایک ٹیبل صاف کرکے کرسیوں پر پڑی اوس کو صاف کرکے وہیں کھڑا ہوگیا۔
ماہ نور نے ملازم سے پوچھا کہ کوئی اور بھی آج یہاں رکا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کہ نہیں وہ اکیلی ہی ہیں کوئی اور مہمان آج نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ میڈم پانی گرم ہے آپ نے بائیں سائیڈ سے کھول کر دو منٹ ٹوٹی کھلی رہنے دینی ہے۔ صالح محمد پارکنگ میں اپنی لوڈر گاڑی میں بیٹھا گہری سوچوں میں گم تھا کہ جوان لڑکی رات کے اس پہر یہاں اکیلی کرنے کیا آئی ہوگی۔ اس نے فیصلہ کیا وہ رات یہاں گاڑی میں ہی قیام کرے گا۔ ماہ نور اسے اسکا کرایہ وہاں چلنے سے قبل ہی ادا کر چکی تھی۔ چند منٹ بعد اپنا سامان کمرے میں رکھ کر ماہ نور جھیل کنارے جا چکی تھی اور چائے سینڈوچ بھی اسے وہاں پیش کر دیا گیا تھا۔
آج سے ٹھیک 5 سال قبل ماہ نور نے پاکستان چھوڑا تھا اور اپنے خاوند کے ساتھ ایک عہد کیا تھا کہ وہ لوگ 5 سال بعد دسمبر کے ماہ میں آج کے ہی دن اسی وقت جب وہ لوگ جدا ہورہے تھے یعنی رات 12 بجے کھبیکی جھیل وادی سون سکیسر میں ملیں گے اور ان سالوں میں ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوگا۔ آج وہ وقت 5 سال بعد آیا تھا اور ماہ نور اپنے خاوند سے ملنے مقررہ وقت پر آ گئی تھی۔ مگر ابھی تک اسکا خاوند نہیں پہنچ سکا تھا۔
ماہ نور اور رمیز دونوں کلاس فیلو تھے۔ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے مگر ذات برادری مختلف ہونے کی وجہ سے والدین نے انکار کر دیا۔ رمیز نے اپنے والدین سے کہا وہ ایک کمہار کا بیٹا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد صدیوں سے مٹی کے برتن بنایا کرتے تھے۔ ماہ نور کے آباؤ اجداد جوتے بنانے اور انکی مرمت کا کام کرتے رہے ہیں۔ اب نہ تو ہم اپنا آبائی کام کرتے ہیں نہ ہی وہ لوگ۔ پیشے قوم نہیں ہوتے مگر یہاں پنجاب میں ہزار سال پہلے کا کمہار آج بھی کمہار ہی ہے۔ چاہے نو سو سال پہلے اس نے یہ پیشہ چھوڑ دیا ہو۔ ہم کمہار اور وہ لوگ موچی تو اگلے ایک ہزار سال تک رہیں گے۔
زمینداروں کو زمین کا چھوٹا یا بڑا ٹکڑا اگر کسی بھی ذات قوم کے باوجود ایک کر سکتا ہے تو ہم ہنرمندوں کو ہمارا ہنر ایک کیوں نہیں کرتا؟ اگر ہم برہمن نہیں ہیں تو وہ بھی اچھوت نہیں ہیں۔ جو ہم ہیں وہ لوگ بھی وہی ہیں۔ یہ لوہار ترکھان نائی دھوبی موچی کمہار جولاہے ماچھی للاری اور دیگر بھی سب کمی کمین ایک ہی ہیں۔ مگر صدیوں سے آپس میں یہ لوگ رشتے ناطے نہیں کرتے۔ ان کو انکا ہنر ایک کبھی نہ کر سکا۔ اور نہ یہ کبھی اس طرح سے طاقت ور بن سکے۔ جس طرح زمین کے نام اور نسبت سے جڑنے والی قومیں خود کو ایک مان کر طاقت اور اقتدار حاصل کرتی ہیں۔
رمیز کے گھر والے مان گئے اور ماہ نور کے گھر رشتہ لے کر چلے گئے۔ ماہ نور نے بھی گھر بات کر رکھی تھی تو ہاں ہوگئی۔ ایک بات یہاں بتانی اہم ہے کہ رمیز نے جب رشتہ بھیجا وہ سول جج کا ریڈر تھا اور ماہ نور وکالت کی ڈگری کرنے کے بعد شروع پریکٹس کرنے کا سوچ رہی تھی۔ ابھی سی ایس ایس کی تیاری کر رہی تھی۔ شادی ہوئی مگر دونوں گھرانے اس وجہ سے خوش نہیں تھے ہم غیر برادری میں بیاہ کر رہے ہیں۔ بچوں کی ضد کے آگے بس ہار مان چکے تھے۔ ایک سال گزرا اللہ نے پہلی اولاد بیٹی دی۔ مگر وہ ایک سپیشل بچی تھی۔ سر میں پانی تھا جسے ہائیڈرو سیفلس کہتے ہیں۔
ماہ نور کی ساس نے کہا کہ ہمارے تو پورے خاندان میں ایسا کوئی بچہ یا بڑا نہیں ہے۔ نہ ہم غیر خاندان میں شادی کرتے نہ یہ عذاب ہمارے گھر آتا۔ وہ اس بچی کو دیکھ کر توبہ استغفار پڑھتیں اور کانوں کو ہاتھ لگاتیں۔ اور ایسا وہ اس بچی کی ماں کے سامنے کرتیں۔ وہ یہ بھی کہتیں کہ ہمارے بیٹے کو کون سا رشتوں کی کمی تھی بس اس لڑکی کے تعویز ڈال کر اسے الو بنا رکھا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو کہتیں کہ اب بھی اسے طلاق دے دو۔ وہ اسکا رشتہ کرا لے گی۔ چھوٹی بچی چند دن بعد وفات پا گئی۔ اور دن بدن ماہ نور کا اس گھر میں رہنا بہت مشکل ہوتا چلا گیا۔ رمیز کو ماہ نور کہتی کہ اپنی امی سے بات کرو۔ میں بھاگ کر نہیں آئی تم بیاہ کر لائے ہو۔ وہ غلط باتیں کرتی ہیں۔ وہ امی سے بات کرتا تو وہ اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیتیں اور ماہ نور کو اس وجہ سے چھوڑنے کا کہتیں کہ اس سے پھر معذور بچہ ہی پیدا ہوگا۔ تم اس سے دوبارہ بچہ مت پیدا کرنا۔ اس کی ماں نے اسے کہا کہ تم اسے نہ چھوڑو تمہاری ہم ایک اور شادی کر لیتے ہیں۔ یہ خود ہی بھاگ جائے گی۔ عدالت میں ہی کوئی خرچ وغیرہ کا کیس کرے گی ناں تو تم خود عدالت میں ہی ملازم ہو دیکھ لینا۔
جاری۔۔